میں نے استاذ گرامی سے ایران میں خواتین کی آزادی اور ولایت فقیہ پر گفتگو کی۔ وہ طویل عرصہ ایران میں رہے ہیں۔ اس کا لب لباب میں بیان کردیتا ہوں
امریکا نے انقلاب ایران کی تحریک کے دوران شاہ ایران کی مدد نہیں کی۔ امریکا کا یہ خیال تھا کہ یہ ملا جب مل کر شاہ کو ہٹا دیں گے تو یہ پھر کسی اپنے پسندیدہ بندے کو حکومت سونپ دیں گے اور خود درس و تدریس میں مشغول ہوجائیں گے ۔ وہ موقعہ امریکا کے لیے سیاست میں مداخلت کے لیے بہترین ثابت ہوگا۔ اس وقت تک علماء فقیہ کی ولایت میں حکومت کو شامل نہیں سمجھتے تھے اور حکومت کا حق صرف امام زمانہ سے مخصوص سمجھتے تھے۔ لیکن امام خمینی کی ایران واپسی کے بعد سارا بیانیہ تبدیل ہوگیا جب آپ نے زمام حکومت خود اپنے ہاتھ میں لے لی اور فقیہ کی ولایت کے دائرے کار کو بڑھا دیا۔ مزید تفصیلات کے لیے امام خمینی کی کتاب حکومت اسلامی کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اس پر علمی طور پر نقد اگر کیا جائے تو اس کو سراہنا چاہیے ۔ لیکن ہوا میں تیر چلانا اور اسلام کے ٹھیکدار بن کر نظام پر تنقید کی علمی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
خمینی صاحب کا یہ اقدام امریکا کے لیے ناقابل قبول عمل تھا۔ اس کے بعد مستقل طور یکے بعد دیگرے انقلابیوں کے اقدامات نے بھی امریکا کی مخالفت کو بڑھاوا دیا۔
ایران مخالف لوگوں کے لیے خاص طور پر پاکستان کے اینٹی شیعہ لوگوں کے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ ایران کا امریکا کو کھل کر برا بھلا کہنا اور ایران پر بدترین پابندیاں بھی انقلاب کو ختم نہیں کرسکیں۔ اس لیے یہ نعرہ ایجاد کیا گیا کہ امریکا درپردہ ایران کے ساتھ ہے۔
اس طرح سے اوریا مقبول جیسے لوگ خود کو اور اپنے حواریوں کو مطمئن کرتے ہیں کہ ایران اصل میں امریکا نواز ہے ورنہ اللہ تو صرف افغانستان اور سعودی عرب والوں کے ساتھ ہے۔
ایران میں ٹیکسی کا شیئرڈ سسٹم ہے۔ یعنی یہ کہ اگر اپ کو کہیں جانا ہے تو کسی اجنبی کے ساتھ مل کر ٹیکسی میں جاسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہاں لوگ افس یا بازار جاتے ہوئے گاڑی کو ٹیکسی میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ ایک مثال سے سمجھئے کہ ایک صاحب آفس سے نکلتے ہیں اور ایک سیدھا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ راستے میں ان کو ایک جگہ دو مرد اور پھر تھوڑے فاصلے پر ایک لڑکی ملتی ہے جو اشارے سے گاڑی رکواتی ہے اور روٹ پوچھ کر گاڑی میں بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ لوگ کچھ کلومیٹر اسی راستے پر سفر کرتے ہیں اور اپنی منزل پر کرایہ دے کر اترتے جاتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات ایک لڑکی دو اجنبی مردوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھی ہوتی ہے تو کبھی ایک مرد دو انجان خواتین کے ساتھ بیٹھا سفر کررہا ہوتا ہے۔ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جگہ تنگ ہے اور لوگ پھنس پھنسا کر بیٹھے ہیں۔
اسی طرح سے ایران میں پارکس بہت ہوتے ہیں۔ وہاں لڑکا لڑکی آزادانہ پیار محبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور کوئی توجہ نہیں دیتا ۔ خاص طور پر تہران اور اصفہان بہت آزاد شہر ہیں۔
ایران میں خواتین بہت سوشل ہیں۔ وہ گھر میں روٹی نہیں پکاتیں اور ہمیشہ تندور سے ہی روٹی آتی ہے۔ خواتین اعتکاف، جلسے جلوس اور نماز جماعت میں بہت آرام سے شرکت کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ وہاں متعہ بھی لیگل ہے جس کے لیے کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ اور ریجسٹریشن کے بعد آپ متعہ کرسکتے ہیں۔
صرف عوامی مقامات پر سر کو ڈھانک لینے کے حکومتی آڈر ہیں۔ اس پر بھی مارپیٹ یا کوڑوں کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ لیکن پرسنل گیدرنگز میں ایرانی خواتین بہت ماڈرن بن کر شرکت کرتی ہیں اور اسکرٹ اور جینز ایک عام پہناوا ہے ۔ جو گون کے نیچے خواتین پہنی ہوتی ہیں۔
ایران میں آلات موسیقی کی فروخت کی بہت دکانیں ہیں۔ ہر بڑے بازار میں آلات موسیقی بک رہے ہوتے ہیں اور ایرانی چینلز پر بھی میوزک بجایا جاتا ہے
ایران مخالف میڈیا بعض اوقات خبر کو بڑھا چڑھا کر شائع کرتا ہے کہ فلاں سنگر کو اٹھا لیا گیا اور اس کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ ظلم ہوگیا وغیرہ۔
اس کے پیچھے دوتین وجوہات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ عرصے پہلے ایک خاتون اینکر کو اٹھا کر جیل میں ڈالا گیا تھا جس کی مغربی میڈیا نے بہت مذمت کی تھی اور اس کے گھر والوں کے انٹرویو اور مذمتی بیانات شائع کیے تھے
اصل وجہ یہ تھی کہ خاتون ہم جنس پرست تھیں اور کچھ عرصے سے کھل کر اس عمل کو پروموٹ کررہی تھیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ اس کا حق ہے تو اس عورت کو اپنے ذاتی معاملات کی آزادی ضرور ہے ۔ لیکن لوگوں کو اس طرف راغب کرنے کی دعوت کو سراہا نہیں جاسکتا ہے۔ اس کا راستہ لازمی قانون کے زریعے روکا جائے گا۔
اسی طرح ضد انقلاب یا ولایت فقیہ کا مزاق اڑانے پر اور اس پر جگل یا گانے بنانے پر پولیس حرکت میں آجاتی ہے۔ اس کے باوجود بھی فنی ڈرامے بنتے رہتے ہیں جن میں ملاوں کو ہدف بنایا جاتا ہے ۔ اگر کسی کو دیکھنا ہے تو مارمولک نامی ڈرامہ دیکھ لے۔ جو پورے ایران میں بہت مشہور ہوا تھا۔ اور علماء نے اس کا بہت برا منایا تھا
آیت اللہ صادق شیرازی اینٹی رہبر معظم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی ایران میں رہتے ہیں اور اطمینان سے درس خارج دیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں بلڈ بنک میں تھا تو ہمارے ساتھ ایک بہت ماڈرن شیعہ ڈاکٹر جن کا نام زینب ہے، کام کرتی تھیں۔ مجھے ایک دفعہ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ایران میں طویل عرصہ رہی ہیں۔ ان کی خالہ وہاں رہتی ہیں۔ تو اس وقت میں نے ان سے پوچھا تھا کہ ایران کی خواتین پر اتنی پردے کی پابندی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انکو گھونٹ کر رکھا جاتا ہے تو انہوں نے مجھے کہا یہ تمہاری سوچ ہے کہ ایرانی عورتیں گھٹی ہوئی ہیں۔ وہ جتنی آزاد ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لو کہ وہ نجی محافل میں بنا حجاب کے اسکرٹ پہن کر ناچتی ہیں اور بہت ماڈرن اور نخریلی ہیں ۔
میں نے پوچھا کہ کیا کوئی پاکستانی ایرانی لڑکی سے شادی کرکے اس کو یہاں لاسکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ شادی چل نہیں پائے گی کیونکہ وہاں خواتین بہت سوشل ہیں۔ وہاں دکانوں پر عام طور پر لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ قہوہ کے ڈھابے پر بھی لڑکی اطمینان سے بیٹھی ہوتی ہے اور قہوہ بیچ رہی ہوتی ہے۔ وہاں خواتین روٹی نہیں پکاتیں اور باہر بہت نکلتی ہیں۔
میرا خیال ہے اتنی آزادی کا ابھی پاکستان میں صرف سوچا جاسکتا ہے ۔ جہاں مدرسوں میں چھوٹے بچے محفوظ نہیں ہیں۔ وہاں ایران کے مظاہروں کو لیکر واویلا مچانا صرف ٹائم پاس ہے۔
لبرل لوگ شاید اسی وقت مطمئن ہوں گے جب وہاں خواتین نیم برہنہ حالت میں گھومنے لگیں ۔
پھر یہ فورا ایران زیارت کے بہانے ٹکٹ کٹائیں گے کہ میں زرا خواتین کو تبلیغ کرکے آجاؤں۔
ابو جون رضا