آج فیملی کے ساتھ گفتگو میں ارتقاء کا موضوع ہی زیر بحث رہا۔ میں نے کارل ساگان کی بیان کی ہوئی ایک مثال پیش کی کہ جاپان میں ایک سیمورائی قبیلہ تھا اس کی اپنے حریف قبیلے سے برسوں سے جنگ جاری تھی۔ ایک دفعہ جنگ سمندر میں ہوئی اور وہ فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ قبیلے کے سربراہ کا نام انتوکو تھا۔ وہ ہیکو نامی قبیلے کا سردار تھا اور بہت کم عمر تھا۔ یہ لوگ جنگ ہار گئے اور سردار جو اس وقت اپنی دادی کے ساتھ جہاز پر سوار تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہار تسلیم کرکے مخالف قبیلے کے ہاتھ نہیں لگیں گے۔ سردار کی دادی اپنے پوتے کے ساتھ پانی میں اتر گئی۔ پورا ہیکو قبیلہ ختم ہوگیا اور صرف 43 خواتین زندہ باقی بچیں جن کو مخالف قبیلے نے ذلت آمیز کاموں پر لگادیا۔
صدیوں تک جاپان میں مچھیرے یہ یقین رکھتے تھے کہ سمندر میں ہیکو قبیلے کی باقیات کیکڑوں کی شکل میں زندہ ہیں۔ وہ بعض ایسے کیکڑے جن کی کمر پر نشانات اور عجیب پیڑن ہوتے تھے ان کو سمورائی قبیلے ہیکو کے لڑاکے قرار دیتے تھے۔ اور ان کو کھانے سے احتراز کرتے تھے۔ ان کیکڑوں کو عقیدت کے ساتھ سمندر میں واپس پھینک دیا جاتا تھا۔
اس عقیدت کی وجہ سے کچھ کیکڑوں میں ارتقاء کا عمل شروع ہوگیا۔ وہ نسل پھلتی پھولتی رہی لیکن اسی نوع کی دوسری نسلوں کو انسان کھاتا رہا جو معدوم ہوگئیں۔
یہ عمل مصنوعی انتخاب کہلاتا ہے۔ ہیکو کیکڑوں کے بارے میں یہ عمل غیر اختیاری طور پر انسانوں سے سرزد ہوا۔
دس ہزار سال پہلے دودھ دینے والی گائے، ریوڑ کی رکھوالی کرنے والے کتے اور مکئی کے کھیت نہیں ہوتے تھے۔ جب انسان نے ان جانوروں اور پودوں کو پالتو بنا لیا تو ہم ان کی افزائش نسل پر قادر ہوگئے۔ کتوں میں ایک ایسی نسل کو پالتو بنایا گیا جو انسان کے ساتھ رہے اور اس کے ریوڑ کی دیکھ بھال کرے، اسی طرح مکئی اور اناج پر دس ہزار سال کی نسلوں کی محنت نے آج ان کے ذائقے اور سائز میں خاطر خواہ تبدیلی پیدا کی اور یہ اس حد تک بدل چکی ہیں کہ بغیر انسانی شرکت کے پیدا نہیں ہوسکتیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان مصنوعی طریقے سے انتخاب کرسکتا ہے تو کیا قدرت انتخاب نہیں کرسکتی؟
جب دس ہزار سالوں میں انسان مصنوعی طریقے سے بے انتہاء تبدیلیاں لا سکتا یے تو قدرت اربوں سالوں میں کتنی تبدیلی پیدا کرسکتی ہے؟
سورہ حجر میں ارشاد ہے
فَاِذَا سَوَّيْتُهٝ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِىْ فَقَعُوْا لَـهٝ سَاجِدِيْنَ
پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم (فرشتے) اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔
(سورہ حجر آیت 29)
ابو جون رضا