ماضی کا انسان چھینک آنے پر ڈر جاتا تھا ۔ وہ سمجھتا تھا کہ روح اس کی ناک سے نکل جائے گی۔ آج بھی چھینک آنے پر دعا دینے کا رواج ہے۔
مصریوں کا عقیدہ تھا کہ انسان کی روح تین ہزار سال تک بھٹکنے کے بعد مردہ انسان کے جسم میں واپس پلٹ آتی ہے۔ اسی لیے وہ بادشاہوں کے ساتھ ان کی ضرورت کا سامان اور بعض اوقات غلاموں کو بھی دفن کردیتے تھے تاکہ جب بادشاہ دوبارہ بیدار ہوں تو ان کی ضروریات زندگی کے سامان جیسے گھوڑے، سونا چاندی وغیرہ کے ساتھ غلام بھی خدمت کے لیے موجود ہوں۔ ان قدیم مصریوں کی قبور کی کھدائی کے دوران اس طرح کا بہت سا بیش قیمت سامان نکالا جاچکا ہے۔
ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ اگر انسان کو اپنے کسی مردہ سرپرست کو پیغام پہنچانا ہو تو وہ کسی مرتے ہوئے انسان کے زریعے اپنی بزرگ شخصیت کو پیغام پہنچا سکتا ہے۔ بعض اوقات قبیلوں کے سردار ذاتی غلاموں کے زریعے اپنے بزرگوں کو پیغام بھیجا کرتے تھے۔ وہ غلاموں کو پیغام سنا کر ان کو قتل کردیتے تھے۔
نیٹ فلیکس کے سیزن “وائی کنگ ولہالہ” میں یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ مشکل وقت میں بزرگ سرپرست ارواح کو پیغام پہنچانے کے لیے ایک شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے جو بخوشی اپنی جان دینے پر رضامند ہوتا ہے اور اس کے زریعے بزرگ ہستیوں سے مدد طلب کی جاتی ہے جو ولہالہ (جنت) میں رہتی تھیں۔
ہندوؤں میں تناسخ کے عقیدے کی بنیاد یہ ماننا ہے کہ ہر شے میں روح پائی جاتی یے۔ جاندار اشیاء سے لیکر پتھروں تک میں روح کا وجود تسلیم کیا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد انسان کی روح اپنے اعمال کے حساب سے نیا قالب اختیار کرتی ہے۔
اسی طرح ان میں یہ عقیدہ بھی پایا جاتا یے کہ شردھ کی رسم اگر صحیح طریقے سے ادا نہ کی جائے تو مردے کی روح پریت بن کر منڈلاتی رہتی ہے۔
ہندو افسانوں کے مطابق ، پترو پکشا کے دوران شردھ (چندہ) پیش کرنے کی روایت کرن سے منسوب ہے۔ کرن ایک فیاض انسان تھا اور اس نے زندگی بھر سونا اور دیگر قیمتی چیزیں ضرورت مندوں اور پسماندہ افراد کی مدد کے لیے عطیہ کی تھیں۔ جب وہ مر گیا اور اس کی روح جنت میں گئی تو اسے سونا اور زیورات کھانے کے لیے دیے گئے۔ وہ بیچارہ پریشان ہو کر اندرا کے پاس اس کی وجہ جاننے کے لیے گیا۔ اندرا نے اسے بتایا کہ اپنی زندگی کے دوران بہت ساری چیزیں خاص طور پر سونا عطیہ کرنے کے باوجود اس نے کبھی بھی اپنے آباؤ اجداد کوکھانا پیش نہیں کیا تھا۔
کرن نے استدلال کیا کہ چونکہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ اس لیے اس نے کبھی اس طرح کی کوئی شے عطیہ نہیں کی چنانچہ اندرا نے کرن کو زمین پر واپس جا کر شردھ کرنے اور چھٹکارا حاصل کرنے کی اجازت دی۔
شردھا کی رسم کے لیے کھانا خاص طور پر آباؤ اجداد کی یاد میں بنایا جاتا یے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کھانے کو کوئی کوا پہلے کھائے جو یما کا پیغمبر سمجھا جاتا ہے۔ اسے ایک اچھی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اگلی باری برہمن پجاریوں کی آتی ہے جن کو کھانا پیش کیا جاتا یے۔ اس کے بعد خاندان کے افراد کھانا کھاتے ہیں۔
اس دوران گردو پران ، اگنی پران اور نچیکیتا اور گنگا اوتارام کی کہانیاں جیسے مقدس صحائف پڑھنا مناسب سمجھا جاتا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ مردوں کی ارواح واپس دنیا میں لوٹ کر دیکھتی ہیں کہ ان کے عزیز و اقارب ان کو کس طرح سے یاد رکھتے ہیں اور اگر وہ خوش ہوجاتے ہیں تو عزیزوں کی یاد میں پکایا گیا کھانا کوے کھا لیتے ہیں۔ اگر کوے کھانا نہ کھائیں اور اڑ جائیں تو یہ سمجھا جاتا یے کہ مردے ناراض یا ناخوش ہیں۔
برصغیر میں مردوں کی برسی پر کھانا پکا کر اس کو سامنے رکھ کر قرآن کریم کی سورتیں پڑھنا شاید ہندوؤں سے ہی مسلمانوں میں داخل ہوا ہے۔
(جاری۔۔۔)
ابو جون رضا
سر جی مسلمانوں میں یہ ختم قرآن والا طریقہ ہندوانہ رسومات سے مستعار ہے جس میں تھوڑا فرق ہے وہ یہ وہاں ایک سادھو یا پنڈت اپنے سامنے کھانے پینے کی چیزیں رکھ کر جنتر منتر پڑھتا ہے جس کو وہ پرساد کہتے ہیں اور ہم مسلمان اپنے مولویوں کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں رکھتے ہیں جس پر مولوی حضرات قرآن پڑھتے ہیں اور ہم اسے خیرات یا ختم قرآن کہتے ہیں ۔۔۔۔بس ہم مسلمانوں میں مولوی
ہوتا ہے اور وہاں پنڈت ہوتا یہی تھوڑا بہت فرق ہے باقی رسومات میں ہم سب شریک ہیں