محرم الحرام اور مجالس

محرم الحرام کی آمد آمد ہے۔ ذاکروں، گویوں اور شاعروں نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ کالے کپڑے، دھاگے، پٹکے، کڑے،بیڑیاں، پنجے ،کلاوے اور کیٹرنگ کا کاروبار کرنے والوں کا سیزن قریب ہے۔

پچھلے سال کی طرح امسال بھی منبر پر چرب زبان خطیبوں کا راج ہوگا۔

شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب
مقام شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب

میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب

مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ خدا نے مجھے سب سے بڑی دولت کیا عطا کی ہے؟ تو میرا جواب یہ ہوگا کہ مجھے خدا نے ریزنگ کرنے کی تھوڑی بہت صلاحیت دی ہے۔

عقل کو ایک نبی سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ میرے ملک کی عوام کو جعلی ملاوں اور زاکرین نے عقل و خرد سے بے گانہ کردیا ۔ ہر سال ہزاروں لاکھوں روپے مجالس پر خرچ کر کے بھی لوگ عقل کا استعمال کرنا نہیں سیکھے۔

جس طرح سے لوگوں کے پاس ملا اور زاکرین کو دینے کے لیے کوئی موضوع نہیں ہے۔ اسی طرح سے ان خطیبوں کے پاس لوگوں کو بتانے کے لیے کوئی ڈھنگ کی بات نہیں ہے۔

یہ وہی گھسے پٹے جعلی معجزات اور جھوٹے قصے منبروں سے سناتے ہیں۔ دو چار جگت بازیاں اور تین چار ذومعنی تفرقہ آمیز باتیں کرتے ہیں ، جھوٹے مصائب بیان کر کے پٹس پڑواتے ہیں اور پھر لفافہ اور تحائف بٹور کر نئی نویلی گاڑیوں میں چار پانچ موالیوں کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔ اس کے بعد باری نوحہ خوانوں کی آتی ہے۔ جو رات گئے مائک پر گلا پھاڑ پھاڑ کر شور مچاتے ہیں اور ان کے سامنے بیس پچیس ننگے دھڑنگے مرد سینہ کوبی کرتے ہیں۔ اختتام پر فرش عزا کو چوم کر نعرے مارے جاتے ہیں۔ پھر مولا کی نوکری کا وقت ختم اور لنگر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔

مجلس کے اختتام پر کسی سے پوچھا جائے کہ آپ نے کیا سیکھا یا آپ کی زندگی پر کیا اثر پڑا تو جواب ندارد ہوگا۔

میں ہر سال کہتا ہوں کہ ان ملاوں اور زاکروں سے کہیے کہ آپ سے مجلس کے اختتام پر دس منٹ کے سوالات موضوع سے متعلق لوگ کریں گے۔ آپ ریفرینسز ساتھ لائیے گا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ شاید ہی کوئی خطیب یا ملا اس طرح کے خطاب کے لیے راضی ہوگا جس کے اختتام پر سوال جواب کا سیشن ہو۔

اگر مجالس کو منعقد کرنے والے یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم موضوع پیشگی طور پر خطیب کو دے دیا جائے کہ وہ اس پر تیاری کرکے خطاب کرے۔

مثال کے طور پر اس سال ان خطیب یا زاکرین کو ان موضوعات میں سے کوئی موضوع دیجئے۔

  1. فہم انسانی اور وحی الہی
  2. لبرل ازم، سیکولر ازم اور اسلام
  3. ثقافتی یلغار اور ہمارا معاشرہ
  4. الحاد اور جدید چیلنجز
  5. جدید دنیا میں روایتی اسلام

اس طرح کے بہت سے موضوعات ہیں جن سے آئے دن ہماری نوجوان نسل کو واسطہ پڑ رہا ہے۔ الحاد جس تیزی سے ہمارے گھروں میں نفوذ کررہا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ ہر دوسرے گھر میں متشکک اور مزہب بیزار افراد پیدا ہورہے ہیں۔ اور ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔

پاني نہ ملا زمزم ملت سے جو اس کو
پيدا ہيں نئی پود ميں الحاد کے انداز

اللہ ہمیں دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

ابو جون رضا

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *