ربا فری بنکنگ ۔ ایک مختصر جائزہ (2)

روایتی بینکاری کی تمام شکلیں اور پراڈکٹس حرام نہیں ہیں۔ اب بینکاری قرضہ دے کر اس پر سود لینے پر منحصر نہیں ہے۔ اب بنکس بہت سی خدمات صارف کو مہیا کرتا ہے اور ان پر متعین رقم فیس کی مد میں وصول کرتا ہے۔

ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔

ایک شخص بنک کی کسی برانچ سے پے آڈر بنواتا ہے۔ بنک اس پر تین سو روپے فیس لیتا ہے۔ فرض کرتے ہیں اس بنک کی ہزار برانچز ہیں۔ اور ہر برانچ روزانہ صرف پانچ پے آڈربناتی ہے اور پندرہ سو روپے کماتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ بنک روزانہ 1,500,000 روپے کماتا ہے، مہینے کے آخر میں چھبیس دن کے حساب سے 39,000,000 روپے کماتا ہے اور سال کے آخر میں یہ رقم 468,000,000 تک پہنچ جائے گی۔

یہ ایک بہت معمولی مثال ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ بینکس کس طرح سے پیسے بناتا ہے۔

غور کیجئے، بینکس آئن لائن ٹرانزیکشن کی فیس چارج کرتے ہیں۔ پے آڈر پر پیسے لیتے ہیں۔اے ٹی ایم کی ٹرانزیکشنز پر پیسے لیتے ہیں۔ ڈیبٹ کارڈ بنوانے پر پانچ سو سے پندرہ سو تک چارج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی سروسز پر پیسے خدمات کے عوض وصول کرتے ہیں۔

ان سب پر شرعی حوالے سے کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ اصل اعتراض اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب پیسہ ادھار کی صورت میں دیا جائے اور جب واپس لیاجائے تو وہ نفع ساتھ لیکر واپس آئے

یا پھر

تجارتی معاملے میں شرعی اصولوں کو مدنظر نہ رکھا جائے۔

جاری ۔۔۔

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *