ربا فری بنکنگ کے حوالے سے کچھ سوالات لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ ربا فری بنکنگ کے ساتھ ایک مسئلہ پاکستان میں کم از کم ایک مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہاں ہر کوئی مفتی ہے اور اسلام کو سب سے بہتر جانتا ہے۔ ایسا مفتی کسی اسلامک بنکنگ میں کام کرنے والے کیشئیر یا کلیئرنگ آفیسر سے جب ملتا ہے تو بزعم خویش اس کو باتوں سے خوب رگڑتا ہے۔ اور آخر میں یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ کان یہاں سے پکڑو یا گھما کر، بات ایک ہی ہے۔ یہ مولویوں کے حیلے ہیں ورنہ رزلٹ تو ہر معاملے کا ایک ہی سامنے آرہا ہے۔
اس سلسلے میں ایک مختصر بات ذہن نشین کر لیجئے کہ
ٹرانزیکشن کی موزونیت کا انحصارحتمی نتیجے پر نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے اختتام تک پہنچنے کے طریقہ کاراور سرگرمیوں پر ہے۔ اگر ٹرانزیکشن اسلامی شریعہ کے اصولوں کے مطابق کی گئی ہو تو یہ حلال ہے خواہ پروڈکٹ کا حتمی نتیجہ روایتی بینکاری کی پروڈکٹ کے مطابق ہو۔مثال کے طور پر پاکستان اور امریکا میں مکڈونلڈ برگر ایک جیسے دکھائی دے سکتے ہیں۔ ان کی خوش بو اور ذائقہ ایک جیسا ہوسکتاہے لیکن مویشیوں کو ذبح کرنے کی اسلامی ہدایات کی تعمیل کی وجہ سے پہلے والاحلال ہے اور دوسرا حرام۔ اس لیے کان گھما کر ہی پکڑنا پڑے گا کیونکہ یہ شریعت کا حکم ہے۔
بینکس کا مجموعی طور پر انحصار لینڈنگ پر ہوتا ہے۔ لوگ بینک اکاوئنٹ میں پیسہ رکھواتے ہیں۔ بنک وہ پیسہ کسی اور شخص کو ادھار پر دے دیتا ہے۔ اور مقررہ مدت بعد پوری رقم ایک بڑے منافع کے ساتھ واپس لے لی جاتی ہے۔ قرضہ لینے والا اگر کاروبار میں اس پیسے کو لگا رہا ہے تو وہ اپنی کاسٹ میں اس قرضہ کے اوپر دیے گئے منافع کی رقم شامل کرتا ہے۔ اور پھر اپنی پراڈکٹ مارکیٹ میں بیچتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کرنٹ اکاوئنٹ میں پیسہ رکھوانے والا شخص بازار سے وہی پراڈکٹ مہنگے داموں خریدتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ اس کو منافع میں سے کچھ حصہ نہیں ملتا جبکہ اس کا پیسہ ہی قرضہ کے طور پر دیاگیا ہوتا ہے۔ دوسری طرف بینکس کے پاس پیسہ بھی واپس آتا ہے اور منافع بھی ساتھ لاتا ہے۔
اگر روایتی بینکس کے سیونگ اکاوئنٹ میں پیسہ رکھا جائے تو اس پر منافع کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے کہ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر منافع ہی لینا ہے تو کیوں نہ نیشنل سیونگز میں رقم رکھی جائے تاکہ منافع بھی زیادہ ملے۔ یعنی اگر حرام چیز کھائی جائے تو اتنی کھائیں کہ پیٹ تو بھرے۔
اس لحاظ سے روایتی بینکاری ہو یا اسلامک بنکنگ ، دونوں میں کرنٹ اکاوئنٹ سب سے زیادہ پسندیدہ تصور کیا جاتا ہے۔ جس میں منافع میں سے کوئی حصہ نہ دینا پڑے۔
جاری۔۔