پاکستان کی بربادی میں من الحیث القوم سب کا کردار ہے۔ خواص زیادہ زمہ دار ہیں۔ شروع سے یہاں اسلام ہمیشہ خطرے میں رہا۔ نظام کی تبدیلی اور اسلام کے نفاذ کا نعرہ آج بھی شد و مد سے لگتا ہے۔
انفرادی طور پر اگر تربیت کی کوشش ہوئی بھی تو رات بھر اذکار پڑھنے اور مقدس ہستیوں کے قصے سننے سے آگے نہ بڑھ سکی۔ جس کا نتیجہ ستر سال بعد یہ نکلا ہے کہ لوگوں کا ہجوم کسی کو بھی دین کے نام پر مارنے سے گریز نہیں کرتا یہاں تک کہ انسانیت اس قدر گر جاتی ہے انسان کو مارنے کے بعد اس کو جلا کر اس کی جلتی ہوئی لاش کے ساتھ سیلفیاں لی جاتی ہیں۔
اگر کچھ خدا ترس اور مہذب لوگ انفرادی طور پر اخلاقی ترںیت کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو بتایا جاتا ہے کہ یہودی ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے۔ فلاں ملک میں مسجد اور فلاں ملک میں حجاب خطرے میں ہے۔ ہمیں ریلی نکالنی چاہیے۔ ہمیں جلوس کی شکل میں پریس کلب جانا چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سارے دین دار لوگ ٹریفک سگنل توڑتے ہیں، رانگ وے آتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، خراب سودا بیچتے ہیں، ہنڈی حوالے سے پیسے بھیجتے ہیں، ٹیکس ریٹرن نہیں بھرتے، بنک لاکرز میں کیش ٹھونستے ہیں اور پھر محفلوں میں بیٹھ کر گورنمٹ کو گالیاں دیتے ہیں کہ اس نے بہت ظلم کیے ہیں، اس ملک نے ہمیں کچھ نہیں دیا اس وجہ سے کوئی برا کام کرے تو وہ مجبور ہے۔ پھر یہی لوگ جمعرات کو رات بھر اذکار پڑھنے شلواریں اونچی کیے اجتماع میں پہنچ جاتے ہیں اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں جس نے معاذاللہ انہیں توفیق دی کہ وہ یہ ساری کرپشن کرسکیں۔
کچھ لوگ چودہ سو سال پہلے ہوئے ظلم کو لیکر سال بھر روتے رہتے ہیں۔ کچھ کو چودہ سو سال پہلے ہوئی جنگیں نہیں بھولتیں۔ وہ اس پر مناظرےکرتے ہیں کہ کون حق پر تھا اور کون مظلوم تھا۔ اور پھر مقدس ہستیوں سے دلی طور پر جنت کے طالب ہوتے ہیں کہ دیکھیں ہم نے آپ کا ذکر دنیا میں بلند رکھا مخالف مسلک کو ذلیل کر کے رکھ دیا۔
نوجون نسل جب یہ سب مشاہدہ کرتی ہے تو اس کا ذہن خدا بیزاری کی طرف جاتا ہے۔ وہ دین کا مذاق اڑاتی ہے اور مغرب کے گن گاتی ہے۔ جس نے ڈیویلپمنٹ کے نام پر غریب ممالک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جو اب قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں۔
کرپٹ معاشرے سے ہمیشہ کرپٹ لوگ ہی اقتدار میں آتے ہیں۔ جن کو ہمیشہ سیٹ کی ہوس رہتی ہے۔ یہ اقتدار کے بھوکے ریلیاں نکال کر ملک بچانے کا نعرہ لگاتے ہیں اور تقریروں میں دین کا استعمال کر کے معصوم لوگوں کو ورغلاتے ہیں۔ لیکن جب یہ خود اقتدار میں آتے ہیں تو مخالف ریلی نکالنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔
پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ریزرو آٹھ ارب ڈالر سے نیچے آچکے ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے امپورٹ کی پیمنٹس نہیں ہو پارہیں۔ اینرجی کرائسس مزید ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اور مہنگائی نے غریب انسان کی کمر توڑ دی ہے۔
یہ ملک ہے تو ہم ہیں، اور یہ نہیں رہے گا تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں؟
اے اللہ اس ملک کے لوگوں کو عقل و شعور عنایت فرما اور اس ملک پر اپنا رحم و کرم فرما۔
ابو جون رضا