کیبنٹ ڈویژن نے ہفتہ والے روز مکمل طور پر چھٹی کی سفارش کی ہے۔ کابینہ بھی اس کے حق میں ہے۔ اب وزیر اعظم صاحب اگر مان جائیں تو ہفتے کو چھٹی ہوسکتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں کمی کا امکان ہے اور تنخواہ دار طبقے کو تھوڑا سکون کا سانس لینے کا موقع مل سکتا ہے۔
وزیر اعظم صاحب صبح 7 بجے آفس پہنچ کر سمجھتے ہیں پورا ملک ان کی تقلید میں صبح سات بجے دفتر پہنچ کر کام کرے گا۔ جو کہ ایک خام خیالی ہے۔ رمضان میں انہوں نے تنخواہ دار طبقے کو دکھ دے کر دیکھ لیا جس پر بینکرز نے وہ ہائے ڈالی کہ ان کو آفس ٹائمنگ واپس کرتے بنی۔
ایک تجویز یہ ہے کہ بازار صبح سات بجے اوپن ہوجانے چاہییں۔ اور پانچ بجے مکمل طور پر بند کر دینے چاہییں۔ اور اگر ایک دن ورک فرام ہوم ہوجائے تو کڑوڑوں روپوں کی بچت کی جاسکتی ہے۔
لیکن کاروباری حضرات یہ سب کہاں مانیں گے۔ انکی تو صبح ہی بارہ کے بعد ہوتی ہے جب وہ انارکلی کی طرح انگڑائیاں لیتے ہوتے ہوئے بیدار ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں
” چلو آو خون چوسیں”
غور کیجئے۔ من الحیث القوم ہمارے اپنے کرتوت ہیں جو ہمارے سامنے آتے ہیں۔
بازار صبح بارہ بجے کھلتے ہیں اور رات بارہ تک کھلے رہتے ہیں۔
یہ مہذب قوموں کا وطیرہ نہیں ہے۔ ان کے یہاں یہ باتیں پرانی ہوچکی ہیں وہ زمانے سے درست نظام الاوقات پر عمل پیرا ہیں۔
ایک مثال سے سمجھیے ۔ بنکس میں جب پانچ بجے دروازہ بند ہوتا یے تو ہم پچھلے دروازے سے داخل ہونا معزز کسٹمر ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔ جبکہ بینکر جتنی دل ہی دل میں گالیاں اور بد دعائیں ایسے کسٹمرز کو دیتا ہے ، اگر یہ معزز کسٹمر سن لیں تو یا تو خود کو مار لیں یا بینکر کو ختم کردیں۔
ڈیجیٹل بنکنگ کی طرف جانا ایسا ہے جیسے معاذاللہ بدکاری کرنا کہ قریب بھی نہیں جائیں گے۔ جبکہ بنکس سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر کام موبائل اور انٹرنیٹ بینکنگ سے آسانی کے ساتھ انجام پاسکتے ہیں۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہر گھر میں ماشاءاللہ ایک عدد بوڑھے بابا رہتے ہیں جن کی بدولت گھر میں رحمت ہوتی ہے۔ وہ ایسے کہ ان کا کام بجلی گیس کے بل بھرنا اور بنکس میں اے سی میں بیٹھ کر ملک کے حالات پر تبصرہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کو آلو پیاز بازار سے لانے پر لگا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ بنا بیڑی کے چلتے رہتے ہیں اور ملک الموت کو گھوریاں ڈالتے رہتے ہیں۔
ہمارے یہاں ہر گھر میں ایک عدد مفتی، سیاست دان اور ماہر معیشت پایا جاتا ہے جو ہر معاملے میں اپنی معلومات جھاڑنا اور ملک کے اداروں کو برا بھلا کہنا اپنا فرض سمجھتا یے۔ لیکن خود اس کی اپنی اولاد بائیک پر سگنل توڑنا، رانگ وے سے آنا اور بنا لائسنس کے گاڑی چلانا اپنا دھرم سمجھتی ہے۔ یہ خود کسی کو لوٹتا ہے اور آگے جاکر کسی اور کے ہاتھ لٹ جاتا ہے۔ یعنی یہ گول چکر ہے جس میں سب لوگ ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں۔
امپورٹڈ گاڑیاں، مشینیں ، عالیشان مکان اور کارخانے دکھائی دیتے ہیں۔مگر اپنے اندر کی پیاس، محرومی اور بے حصولی کا احساس، رشتوں کی بربادی کا احساس۔۔۔ یہ سب کسی کو نہیں نظر آتا۔ لوگ بھول گئے کہ خیال اور احساس بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔
باہر بھی بھیڑ ہے۔ اندر بھی بھیڑ ہے۔ کوئی اکیلا نہیں۔ اسی لیے لوگ سوچنا بھولتے جاتے ہیں۔ رفتار پر کسی کا قابو نہیں رہا اور سب بے لگام ہیں، اور انسانوں اور گاڑیوں کو۔۔۔ سب کو کہیں پہنچنے کی جلدی ہے۔ اور کسی کو احساس نہیں کہ یہ راستے بس راستوں تک لے جاتے ہیں۔ اور کوئی دم لینے کے لیے بھی ٹھہرنا نہیں چاہتا۔
اس دفعہ زندگی جلدی میں تھی
کہہ دو اگلی بار فرصت میں ملے
ابو جون رضا
Great post
بہترین ۔۔۔۔۔۔۔
Kia baat hai ..behtareen akkasi hai society ki. allah pak apko Salamat rekhe
جزاک اللہ