امام زید کے یہاں حضرت علی کے خصائص اتنے اعلی تھے کہ وہ امام علی سے غلطی کا تصور نہیں کرسکتے تھے مگر ان کے نزدیک حضرت ابوبکر اور حضرت عمر قانونی طور پر منتخب قائدین تھے۔ ان کے اس رویے نے محدثین کے حلقوں کو بڑا متاثر کیا اور ان کی حمایت اور ہمدردی ان کے اسی رویے کی بناء پر حاصل ہوئی۔ (1)
امام زید کی حمایت کرنے والوں میں بتریہ اور جارودیہ بھی شامل تھے۔ دانشنامہ جہان اسلامی کے مطابق یہ اہل تشیع کا وہ گروہ تھا جو عقائد میں اہل سنت کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا یعنی یہ لوگ خلفائے راشدین کے بھی معتقد تھے لیکن امامت پر اولاد فاطمہ زہرا اور امام علی کے بیٹوں کا حق سمجھتے تھے۔ یہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کو اس لیے قبول کرتے تھے کہ حضرت علی نے ان کی خلافت کو تسلیم کرلیا تھا۔ یہ مانتے تھے کہ علم صرف خاندان رسول تک محدود نہیں ہے بلکہ علم کا متلاشی عام آدمیوں میں بھی اسے تلاش کرسکتا ہے اور حاصل کرسکتا ہے۔ (2)
ایک اور گروہ جس نے امام زید کی حمایت کی وہ جارودیہ تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ حضرت علی کو اللہ نے رسول کا وصی مقرر کیا تھا اس وجہ سے ان کو منتخب نہ کرکے شیخین گمراہ ہوگئے۔ لیکن وہ یہ مانتے تھے کہ امامت صرف اس وقت جائز ہوتی ہے جب رسمی بیعت کی دعوت دی جائے اور خروج کیا جائے۔ (3)
اس مذہب کے عقائد کے مطابق جو بھی حسن اور حسین ابن علی کی اولاد میں سے ہیں اور جنہوں نے ظلم کے خلاف قیام کیا وہ امام ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک زمانے میں دو امام ظہور کریں۔
اس بات کا تزکرہ ضرور ہونا چاہیے کہ امام باقر نے کبھی شیخین کو برا بھلا نہیں کہا۔ بلکہ ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا خاندان رسول میں سے کسی نے پہلے دو خلفاء کو برا بھلا کہا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس کے برعکس ہمیشہ ان کو پسند کیا، ان کی پیروی کی اور ہمیشہ ان کے لیے دعا کی۔(4)
زیدی فرقہ کے حوالے سے جوزف شاخت کا یہ خیال ہے کہ یہ اولین شیعہ تھے جو سنیوں سے علیحدہ ہوئے (5)
مگر اس کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ زیدی فرقے کے دو گروہ بتریہ اور جارودیہ دونوں نے امام محمد باقر کے مکتب کے نظریات کو لیا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق ان میں اضافہ کیا تھا۔ جارودیہ ابھی بھی یمن میں پائے جاتے ہیں۔
امام علی کے فرزند محمد بن حنفیہ کے بیٹے ابو ہاشم کو ایک گروہ امام مانتا تھا جس کو ہاشمیہ کہا جاتا تھا۔ ابو ہاشم کو اموی خلیفہ سلیمان نے دعوی امامت پر زہر دے کر مروا دیا تھا۔ ان کے قتل کے بعد ہاشمیہ چار مزید گروہوں میں تقسیم ہوئے جن مین ایک گروہ بیانیہ کہلایا جس کا عقیدہ تھا کہ ابو ہاشم مہدی ہیں اور رضوی کے پہاڑ میں چھپ گئے ہیں۔ (6)
بیانیہ گروہ کا سرغنہ بیان بن سمعان تھا۔ اس نے امام محمد باقر کو ابو ہاشم کے مرنے کے بعد خط لکھا کہ وہ اسے بحیثیت رسول قبول کریں۔(7)
اس نے امام باقر کی وفات کے بعد دعوی کیا کہ اس کو امام نے اپنا خاص ایلچی مقرر کیا ہے اور یہ امام جعفر کے نام سے خروج کی تیاری کر رہا تھا کہ کوفہ کے گورنر خالد بن عبداللہ قسری کے حکم پر اس کو قتل کر دیا گیا۔ (8)
حوالہ جات :
1۔ ابتدائی شیعی فکر از آرزینہ آر لالانی صفحہ 46
2۔ نوبختی، فرق الشیعہ
3۔ ماڈے لنگ ، Der Imam Al Qasim ، ص 45
4۔ طبقات ابن سعد، جلد نمبر 5، صفحہ 312
5۔ شاخت origins, 267
6۔ نوبختی ، فرق الشیعہ
7۔ شہرستانی، الملل ص 113، نوبختی فرق الشیعہ ص 227
8۔ الطبری ، تاریخ ، جلد 2 ص 1619
(جاری)
ابو جون رضا