ہشام بن الحکم کا پیش کردہ عصمت کا نظریہ امامت کو سیاست سے مزہبی اختیار کی طرف لے گیا۔ اس کے باوجود بھی مختلف تحریکیں اٹھیں جن میں کیسانیہ اور مختاریہ کے نام نمایاں ہیں۔ جنہوں نے بعد میں فرقہ کی شکل اختیار کی۔ فرق الشیعہ میں نوبختی نے ان فرقوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ شدت پسند شیعہ تھے جنہوں نے امام میں سپر نیچرل خوبیاں قرار دیں اور کہا کہ امام کائنات کا مرکز ہوتا ہے اور اگر امام نہ ہو تو یہ زمین و آسمان اپنی جگہ چھوڑدیں۔ اس نوعیت کی روایات کلینی نے جلد 1 اور ابن بابویہ قمی نے عیون اخبار رضا جلد 1 میں نقل کی ہیں۔ لیکن ان باتوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا تھا کہ امام چاہے حکومت کرے یا نہ کرے وہ ہی مرکزی رہنماء ہے۔
کچھ روایات ایسی بھی شیعہ کتب میں نقل ہوئیں جن کی تشریح نے شیعہ علماء کو شچ و پنج میں ڈال دیا۔ وہ اس قدر صحیح سند سے وارد ہوئیں کہ ان کو مسترد کرنا ممکن نہ تھا۔ تو ان کی تاویلات کی گئیں۔
مثال کے طور پر یہ روایت جو کلینی نے نقل کی۔
“ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر سے سنا۔ وہ فرماتے تھے کہ اے ثابت ! اللہ نے ظہور مہدی کا وقت 70 ھ مقرر کیاتھا۔ جب امام حسین قتل ہوئے تو اللہ اہل زمین پر غضب ناک ہوا۔ اس نے اس امر کو 140 ھ تک موخر کردیا۔ ہم نے تم کو بتا دیا اور تم نے لوگوں کو بتا دیا اور پردہ فاش کردیا۔ اس کے بعد اللہ نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے ثابت رکھتا یے۔ اسی کے پاس ام الکتاب ہے” (1)
نفس زکیہ جن کا خروج امام محمد باقر کی وفات کے بعد ہوا ان کے مہدی ہونے کا پرچار ان کے والد نے ان کی پیدائش سے ہی شروع کردیا تھا۔ اور یہ کوششیں اس حد تک بارآور ثابت ہوئیں کہ امام باقر کی زندگی کے آخری سالوں میں مشہور غالی مغیرہ بن سعید امام محمد باقر سے وفاداری تبدیل کر کے کچھ لوگوں کے ساتھ عبداللہ المحض اور ان کے بیٹے نفس زکیہ سے جا ملا (2)
اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ امامت کا باپ سے بڑے بیٹے میں منتقل ہونا یا موروثی امامت کا نظریہ بڑے پیمانے پر قابل قبول نہ تھا۔
شیخ مفید کا خیال ہے کہ امام زید کا خروج بھی امام حسین کے خون کے انتقام کے سلسلے میں تھا اور وہ حکومت مل جانے پر امام محمد باقر کے حوالے کردیتے۔ (3)
اس خیال کو غیر معقول خود جناب زید اپنے نظریات اور رویے سے بنا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر دو کوفی شیعہ بھائیوں ابوبکر بن محمد حضرمی اور علقمہ نے زید سے پوچھا کہ ” آیا حضرت علی تلوار اٹھانے سے قبل امام تھے یا نہیں؟ جناب زید نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا۔ (4)
بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ امام باقر اور زید بن علی کے درمیان امامت کی جدوجہد امام زین العابدین کے فورا بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ امام محمد باقر کے ایک مناظرے کا زکر جو امام زید سے امامت کے مسئلے پر ہوا وہ بھی جناب زید کے نظریات پر روشنی ڈالتا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اگر امام کو اپنی پہچان کروانی ہے تو اسے اپنے دعوی کے لیے تلوار اٹھانی چاہیے اور ظالموں کے خلاف جنگ کرنی چاہئے۔ اس پر امام محمد باقر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ” گویا آپ خود اپنے والد کے امام ہونے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی جنگ نہیں کی ۔ (5)
قاضی نور اللہ شوستری نے مومن طاق کے اور امام زید کے ایک مباحثہ کا زکر کیا ہے۔ جس میں امام زید استدلال کرتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو کسی اور کے امام ہونے کی کوئی خبر نہیں دی اور تمہیں یہ بات پتا چل گئی کہ امام کون ہے؟ (6)
مگر یہ مباحثہ وضعی لگتا ہے جو امام زید کے علمی تبحر کے منافی ہے کہ وہ بچکانہ سوالات مومن طاق سے کریں اور آخر میں اتنا ہی بچکانہ جواب سن کر لاجواب ہوجائیں۔
حوالہ جات :
1۔ کلینی ، کافی جلد 1 صفحہ 368
2۔ نوبختی، فرق الشیعہ ص 54
3۔ مفید ، ارشاد ص 403
4۔ کشی، رجال ص 416
5۔ شہرستانی، ملل جلد 1 ص 260
6۔ نور اللہ، مجالس المومنین، تذکرہ مومن طاق
(جاری)
ابو جون رضا