رسول اکرم کے اہل بیت کو ہمیشہ عوام الناس کی طرف سے عزت اور پذیرائی ملی۔ ان کو ہمیشہ ایک لیڈر اور رہنماء کے طور پر دیکھا گیا۔ امام زین العابدین کے زمانے میں مختار ثقفی کی تحریک چلی جس کو کوفہ کے شیعوں کی سپورٹ حاصل تھی۔ سب سے پہلے مختار کے گرد جمع ہونے والے شیعہ تھے جنہوں نے امام زین العابدین کے بجائے محمد حنفیہ کو رہبر کے طور پر چنا اور ان میں سے بعض کو کیسانی کہا گیا۔ مختار کے غلام اور موالیوں کے کمانڈر کا نام ابو عمرہ کیسان تھا ۔ جس کے نام پر اس فرقے کا نام پڑا۔ یہ فرقہ امام ابو حنفیہ کو امام مانتا تھا اور ان کے غیبت میں جاکر واپس آنے کا عقیدہ رکھتا تھا۔ یہ فرقہ زیادہ عرصے زندہ نہ رہ سکا اور تاریخ کے جھروکوں میں گم ہوگیا۔
امام محمد باقر کو عوام الناس میں پذیرائی حاصل رہی۔ کشی اور عیاشی کے مطابق ” امام باقر سے پہلے شیعہ وہی کچھ جانتے تھے جو انہوں نے مخالف مسلک سے سیکھا تھا۔ یہاں تک کہ حج بھی اہلسنت مکتب کے مطابق انجام دیتے تھے ۔ پھر امام محمد باقر آئے اور انہوں نے ان کو تعلیم دی اور بتایا کہ کیا غلط ہے ، کیا مباح ہے اور کس چیز کو چھوڑنا بہتر ہے۔ یہاں تک کہ شیعوں کو مکتب اہلسنت کی حاجت نہ رہی بلکہ یہ لوگ تبلیغ کرنے لگے”
ان کے بعد امام جعفر صادق کی طرف بھی لوگ روحانیت اور علم حاصل کرنے کے لیے رجوع کرتے رہے۔ امام جعفر صادق کے دور میں شیعت دوبارہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ جن میں سے ایک گروہ زیدی اور ایک گروہ جعفری کہلائے۔ جعفری ہی بعد میں امامی کہلائے گئے۔
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس زمانے میں امام محمد باقر یا امام جعفر صادق کے گرد جتنے لوگ جمع تھے وہ ان کو ویسا ہی امام مانتے تھے جیسا آج کے شیعہ مانتے ہیں بلکہ بعض شیعہ ان کو ایک سب سے بڑا عالم سمجھتے تھے اور ان کے افکار کی پیروی کرتے تھے۔ اس بات کی تصدیق اس خط سے ہوتی ہے جو دوسرے عباسی خلیفہ منصور نے نفس زکیہ کو لکھا تھا۔
یہ نفس زکیہ کے خط کا جواب تھا جس میں منصور نے لکھا کہ
” رسول اکرم کے بعد کوئی تمہارے گھرانے میں علی بن الحسین جیسا متقی پیدا نہیں ہوا اور ان کے بعد ان کے بیٹے محمد باقر جیسا کوئی تھا اور نہ ان کے بیٹے جعفر جیسا کوئی ہے”
(جاری)
حوالہ جات :
1۔ کیسانیہ کے لیے مستشرق میڈولونگ کا مقالہ کیسانیہ
2۔ کشی ، صفحہ 425، عیاشی جلد 1، صفحہ 252- 253
3۔مکمل خط کے لیے ملاحظہ کیجئے ۔ طبری جلد 7 صفحہ 569، تاریخ کامل جلد 4، صفحہ 119۔ ( نفس زکیہ کا خط اور خلیفہ منصور کا جواب ، ان دونوں کا شیعہ انکار کرتے ہیں۔ ان کو ماننے کی صورت میں بہت سے قدیم عقائد پر ضرب لگ سکتی ہے)
3۔منصور کا نفس زکیہ کو جواب
تمھارا خط مجھ کو ملا ۔ عوام کو برانگیختہ کرنے اور جہلا میں مقبول بننے کے لیے تم نے یہ نسب و مفاخر جوڑ رکھے ہیں۔ جن کی ساری بنیاد عورتوں پر ہے۔ حالانکہ عورتوں کا وہ درجہ نہیں جو چچا کا ہے۔ تم کو معلوم ہے جب اللہ نے رسول عربی کو معبوث فرمایا تو اس وقت ان کے چچاؤں میں چار شخص زندہ تھے (حمزہ،عباس، ابو طالب اور ابو لہب)۔ ان میں سے دو اسلام لائے جن میں سے ایک میرا باپ تھااور دو کافر رہے جن میں سے ایک تمھارا باپ تھا۔ تم نے عورتوں کا ذکر کر کے جو ان کی قرابت پر جو فخر کیا ہے۔ یہ نادانی ہے۔ اگر عورتوں کو نسبی فضیلت میں سے کوئی حصہ ملتا تو ساری فضلیت رسول اللہ کی والدہ کے لیے ہوتی۔ لیکن اللہ تو جس کو چاہتا ہے اپنے دین سے سربلند کرتا ہے۔ تعجب ہے کہ ابو طالب کی والدہ فاطمہ بنت عمرو پر بھی تم نے ناز کیا ہے۔ سوچو تو کہ ان کے بیٹوں میں سے اللہ نے کسی کو بھی اسلام کی ہدایت کی اور اگر کرتا تو اس کے زیادہ حقدار نبی کے والد ہو سکتے تھے۔ لیکن وہ تو جس کو چاہتا ہے اسی کو ہدایت دیتا ہے۔ تم نے اس پر بھی فخر کیا ہے کہ حضرت علی والدین کی طرف سے ہاشمی ہیں اور حسن والدین کی طرف سے عبدالمطلب کے بیٹے ہیں اور تمھارا نسب والدین کی طرف سے رسول اللہ تک جا پہنچتا ہے۔ اگر واقعی یہ کوئی فضیلت ہو تی تو نبی اس کے زیادہ مستحق ہوئے لیکن وہ تو صرف ایک ہی طرف سے ہاشمی ہیں۔ پھر تم اپنے آپ کو رسول اللہ کا بیٹا کہتے ہو ؟ حالانکہ قران نے اس سے بالکل انکار کیا ہے ماکان محمد ابا احد من رجالکم (محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ) ہاں تمھارا یہ کہنا درست ہے کہ تم ان کی بیٹی کی اولاد ہو اور یہ بے شک ایک قریبی رشتہ ہے لیکن اس کے ذریعے کسی قسم کی میراث نہیں مل سکتی اور نہ اس سے تم امامت کے حقدار ہو سکتے ہو۔ اسی قرابت کی بنیاد پر تمھارے باپ علی نے ہر طرح سے خلافت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ حضرت فاطمہ کو حضرت ابوبکر سے لڑا کر رنجیدہ کیا۔ اسی غصہ میں ان کی بیماری کی بھی کسی کو اطلاع نہیں کی اور جب انھوں نے انتقال فرمایا تو رات کو ہی لے جا کر ان کو دفن کر دیا۔ مگر کوئی ابوبکر کو چھوڑ کر ان کی خلافت پر راضی نہ ہوا۔ خود آنحضرت کی بیماری کے زمانے میں بھی وہ موجود تھے۔ لیکن نماز پڑھانے کا حکم آپ نے حضرت ابوبکر کو دیا۔ ان کے بعد حضرت عمر خلیفہ ہو گئے۔ پھر خلافت اصحاب شورٰی میں آئی اس میں بھی وہ انتخاب میں نہ آ سکے اور حضرت عثمان خلیفہ ہو گئے۔ ان کے بعد انھوں نے طلحہ و زبیر پر سختی کی۔ سعد بن ابی وقاص سے بیعت لینی چاہی۔ انھوں نے اپنا پھاٹک بند کر لیا۔
جب علی گزر گئے حسن ان کی جگہ پر آئے۔ معاویہ نے شام سے لشکر کشی کی نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ رقم ان سے لے کر اپنے شیعہ اور خلافت دونوں کو معاویہ کے سپرد کر دیا اور مدینہ چلے گئے۔ لہذا اگر تمھارا کچھ حق بھی تھا تو اس کو فروخت کر چکے۔ تمھارا یہ کہنا کہ اللہ نے جہنم میں بھی تمھارے امتیاز کا لحاظ رکھا۔ تمھارے باپ ابو طالب کو سب سے کمتر عذاب ملے گا۔ نہایت افسوس ناک ہے۔ اللہ کا عذاب خواہ کم ہو یا زیادہ مسلمان کے لیے فخر کی چیز نہیں۔ اور نہ اس میں کوئی فضیلت ہے۔
یہ جو تم نے لکھا ہے کہ تمھاری رگوں میں عجمی خون مطلق نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم آنحضرت کے فرزند ابراہیم سے بھی بڑھ کر اپنے آپ کو سمجھتے ہو ۔ حالانکہ وہ ہر لحاظ سے تم سے افضل تھے۔ خود تمھارے خاندان میں زین العابدین تھے وہ تمھارے دادا حسن بن حسن سے بہتر تھے۔ پھر ان کے بیٹے محمد باقی تمھارے باپ سے بہتر اور ان کے بیٹے جعفر صادق تم سے بہتر ہیں۔ حالانکہ ان سب کی رگوں میں عجمی خون ہے۔ تم یہ بھی دعوٰی کرتے ہو کہ نسب اور ماں باپ کے لحاظ سے تم کل بنی ہاشم سے بہتر ہو ۔ بنی ہاشم میں رسول اللہ بھی ہیں تمھیں یہ تو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن اللہ کو منہ دکھانا ہے۔
صفین کے معاملے میں تمھارے باپ علی نے پنچوں سے پیمان کیا تھا کہ ان کے فیصلے پر رضا مند ہو جائیں گے۔ تم نے یہ سنا ہو گا کہ پنچوں نے ان کو خلافت سے معزول کر دیا تھا۔ یزید کے عہد میں تمھارے عم حسین بن علی ابن زیادہ کے مقابلے کے لیے کوفہ آئے اور جو لوگ ان کے حامی تھے انھیں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان کے بعد تمھارے خاندان کے کئی آدمی یکے بعد دیگرے خلافت کے لیے اٹھے۔ بنی امیہ نے ان کو قتل کیا اور سولی پر چڑھایا یہاں تک کہ ہم مستعد ہوئے اور ہم نے تمھارا اور اپنا سب کا انتقام ان سے لیا۔ وہ نماز کے بعد تمھارے اوپر جو لعنتیں بھیجا کرتے تھے اس کو بند کیا۔ تمھارے رتبے بڑھائے۔ اب انھی امور کو تم ہمارے سامنے بطور حجت پیش کرتے ہو؟
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے علی کی فضیلت کا اظہار کیا تو ہم ان کو عباس و حمزہ سے بھی بڑھ کر تسلیم کرتے ہیں ؟ وہ سب لوگ محفوظ گزر گئے اور علی ان جنگوں میں پڑے جن میں مسلمانوں میں خونریزی ہوئی۔
تمھیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ زمانہ جاہلیت میں سقایت حج اور زمزم کے متولی حضرت عباس تھے نہ کہ ابو طالب۔ حضرت عمر کی عدالت میں تمھارے باپ نے اس کا دعوٰی بھی پیش کیا مگر فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔ رسول اللہ نے جس وقت وفات پائی اس وقت ان کے عمام میں سے سوائے حضرت عباس کے اور کوئی زندہ نہ تھا۔ اس لیے کل اولاد عبدالمطلب میں سے آنحضرت کے وارث وہی ہیں۔ پھر بنی ہاشم میں سے بہت سے لوگ خلافت کے لیے اٹھے لیکن بنی عباس نے ہی اس کو حاصل کیا۔ لہذا قدیم استحقاق اور جدید کامیابی حضرت عباس اور ان کی اولاد کے ہی حصہ میں آئی۔ بدر کی لڑائی میں تمھارے چچا طالب اور عقیل کی وجہ سے مجبوراً حضرت عباس کو بھی آنا پڑا۔ ورنہ وہ بھوکوں مر جاتے یا عتبہ اور شیبہ کے پیالے چاٹتے۔ ہمارے ہی باپ کی بدولت اس ننگ عار سے بچے۔ نیز آغاز اسلام میں قحط کے زمانے میں حضرت عباس نے ہی ابو طالب کی مدد کی۔ پھر تمھارے چچا عقیل کا فدیہ بھی بدر میں انھوں نے ادا کیا۔ الغرض جاہلیت اور اسلام دونوں میں ہمارے احسانات تمھارے اوپر ہیں۔ ہمارے باپ نے تمھارے باپ پر احسان کیے اور ہم نے تمھارے اوپر۔ اور جن رتبوں پر تم خود اپنے آپ کو نہیں پہنچا سکتے تھے ان پر ہم نے تم کو پہنچایا اور جو انتقام تم نہیں لے سکتے تھے وہ ہم نے لے لیے ۔ والسلام
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com