جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ عزاداری میں واقعہ کربلا کو اجاگر کرنے کے لئے شبیہ سازی کا سہارا لیا گیا تھا جس میں جانوروں کا استعمال بھی کیا گیا۔ یہ درست یے کہ اونٹ یا اونٹنی بھی جلوس میں شامل کیے گئے لیکن جو عزت اور شہرت شبیہ ذوالجناح کو حاصل ہوئی وہ کسی اور جانور کو نصیب نہیں ہوئی۔
مشرکین مکہ بھی بعض جانوروں کا احترام کرتے تھے۔ مثلاً بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام۔ ان کے نزدیک یہ جانور محترم تھے اور بعض اوقات ان کو ہاتھ لگانا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ مشرکین کی خود ساختہ حرمتیں تھیں جس کو قران کریم نے مَا جَعَلَ اللهُ مِنْ بَحِیرَةٍ وَلاَسَائِبَةٍ
وَلاَوَصِیلَةٍ وَلاَحَامٍ کہہ کر مسترد کردیا۔
انبیاء گھوڑے، اونٹنی، گدھے اور خچر پر سوار ہوتے تھے۔ یہ سواری اور بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے جانور تھے۔
علامہ علی نقی صاحب (نقن صاحب) نے ان جانوروں کی شبیہ نکالنے کے جواز کے لیے اپنے ایک رسالہ ذوالجناح میں قران کریم میں جانوروں کے زکر سے استدلال پیش کیا اور لکھا،
“اصحاب کہف کے کتے کا زکر قران مجید میں موجود ہے اور وہ بھی انہی خصوصیات میں شریک کیا گیا جو اصحاب کہف کے لیے حاصل ہیں”۔
ان کی بات سے اصحاب کہف کے کتے کی شبیہ بنانا بھی روا سمجھی جاسکتی ہے اگرچہ میرے علم میں نہیں کہ ایسا حقیقت میں کہیں ہوتا ہے۔
اس مقام پر راشد شاز صاحب کے جملے یاد آتے ہیں، ان سب شبیہات اور علامتیں جن کو روحانی تمثیل کا نام دیا گیا ان کا اپنا جبر ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ ان کے نرغے آگئے تو اس نظری شاکلے کو توڑنا آسان نہیں ہوتا۔ پھر آپ کی نسلیں اس عقیدت اور غلو کے شکنجے میں پھنس جاتی ہیں۔ جانور اس حد تک مقدس بنتا ہے کہ اس کے نیچے سے انسان کے بچے نکالے جاتے ہیں، اس کے کان میں حاجات کہی جاتی ہیں، اس کی رال باعث شفاء قرار پاتی ہے اور مرنے کے بعد اس کی قبر عقیدت سے بنائی جاتی ہے۔
ذوالجناح عاشور کے اس منظر کی تصویر پیش کرتا ہے جب یہ اپنے سوار کے بغیر میدان جنگ سے سر جھکائے افسردہ خیموں کی طرف واپس آیا تھا۔
آج بھی اس کی خالی پیٹھ کسی سوار کی راہ تک رہی ہے جو اس پر بیٹھ کر غلو و عقیدت کے بتوں کو توڑے اور غلبہ حق کے مشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائے۔
(ختم شد)
اس مقالہ کی تیاری کے لیے مندرجہ زیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا۔
1۔ قیصر التاریخ حصہ اول۔ کمال الدین حیدر
اودھ آئینہ ایام میں از سید امجد حسین
2۔ پری خانہ از نواب واجد علی شاہ
3۔ تاریخ لکھنو از عبدالحلیم شرر
4۔ تاریخ عزاداری از مصطفی احسن رضوی
5۔ واجد علی شاہ از سید تقی احمد
6۔ تاریخ عزاداری جون پور از محمد خیر الدین
7۔ المنتظم فى تاریخ الملوک و الامم، از ابن جوزی
8۔ مقالات تاریخی از رسول جعفریان
9۔ صفویان در عرصہ دین، فرہنگ و سیاست، از رسول جعفریان
10۔ تاریخ الکامل ابن ثیر
11۔ تاریخ ادبیات ایران ذبیح اللہ صفا
12۔ کچھ کتابوں کے نام دوران مقالہ لکھ دیے گئے تھے جن کو دوبارہ یہاں دہرایا نہیں گیا۔