عزاداری اور رسومات ایک جائزہ (11)

زنجیر زنی اور قما زنی کی روایت دسویں صدی سے چلی ہے۔ پرانے شیعہ علماء اس پر کلام نہیں کرتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ جذبات کے بے قابو ہوجانے اور مودت اہلبیت کی ایک شکل یے۔

کچھ اہل دانش علماء جیسے آیت اللہ محسن امین نے “تنزیہ اعمال الشبیہ”میں اس عمل کو خرافات قرار دیا تو ان کو شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ مرجع تقلید “آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی قدس سرہ” جو اس زمانے میں مرجعیت تامہ کے مقام پر فائز تھے انہوں نے علامہ محسن امین اور ان کی بیدار کن کتاب کی حمایت میں فتویٰ صادر کیا اور کھل کر فرمایا

“تلوار، زنجیر، طبل اور اس طرح کی چیزوں سے استفادہ کرنا کہ جو آج کل یوم عاشور کی عزاداری میں رائج ہو چکی ہیں، قطعا حرام اور غیر شرعی ہے”

اس فتوے نے نجف کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک ٹولے نے ان لوگوں پر جو علامہ امین کے حامی تھے، طعنہ زنی کرتے ہوئے انہیں بنی امیہ سے جوڑ دیا اور خود کو علویین کا نام دے کر مخالفت شروع کردی۔

آیت اللہ ابوالحسن کے فتوی کے مقابل میں لوگ شیعہ فقیہ جیسے مرزائے نائینی کے فتوی کو پیش کرتے تھے جو انہوں نے 5 ربیع‌الاول 1345ھ کو صادر کیا تھا، جس میں لکھا تھا،

“تلوار اور قمہ مارنے کے ذریعے سر اور پیشانی سے خون جاری کرنا جائز ہے ہے اس شرط کے ساتھ کہ کوئی نقصان پیش نہ آئے۔ پیشانی کے ہڈی کو نقصان پہنچائے بغیر خون نکالنا جو عموما نقصان کا باعث نہیں ہے، اسی طرح قمہ زنی کرنے والے حضرات بھی اس طرح مارتے ہیں کہ اس سے نقصان نہیں پہنچتا اور اگر اس گمان کے ساتھ کہ قمہ زنی سے نقصان نہیں پہنچے گا قمہ زنی کرے اور بعد میں زیادہ خون بہنے کی وجہ سے نقصان پہنچے تو اس کا حرام ہونا بعید ہے”

خونی ماتم کی رسم ڈھول تاشوں کے ساتھ ادا کی جاتی تھی۔ ایک نوحہ بھی پڑھا جاتا تھا، جس کی لے پر خونی ماتم کیا جاتا تھا۔ ایران میں زنجیروں کو ایک دستے سے منسلک کر کے کمر پر مخصوص انداز سے مارا جاتا ہے۔

قما زنی کی روایت ایران میں ناصر الدین شاہ قاچار کے دور میں شروع ہوئی اور اس کام کے اصلی محرک اس زمانے کے عالم آقائے دربندی تھے۔

علی شریعتی قمہ زنی اور اس سے مشابہ رسومات کو حضرت عیسی کے مصائب سے اقتباس‌ شدہ مانتے ہیں جسے مسیحی حضرت عیسی کی بررسی کے عنوان سے مناتے ہیں۔

شہید مطہری اس بات کے معتقد ہیں کہ “قمہ زنی اور ڈھول اور باجے بجانا قفقاز کے مسیحیوں سے ایران میں سرایت کرگیا۔ چونکہ لوگوں کا رجحان اسے قبول کرنے کے لئے تیار تھا اس لئے پورے ملک میں تیزی سے پھیل گیا۔

برصغیر میں زنجیروں کے ساتھ چھریاں منسلک کی جاتی ہیں جن کو کمر پر مار کر خونی ماتم کیا جاتا ہے۔

(جاری)

نوٹ اس کے بعد آخری قسط پیش کی جائے گی۔

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *