مرزارجب علی بیگ سرورؔ، ’فسانہ عجائب‘ کے دیباچے میں عہد نصیری کی عزاداری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’دوازدہ امام ؑ کی درگاہ ایسی بنائی کہ چرخ گردوں کے خواب میں نظر نہ آئی بجز غم حسین ؑ اندوہ غم نہیں، کوئی شاد و خرم نہیں، اربعین تک عزاداری ہوتی ہے۔ خلق خدا ماتم میں روتی ہے۔ لاکھوں روپیہ اس راہ میں صرف ہوتا ہے ،ہر معصوم کی ولادت اور فاتحہ پر لاکھ لاکھ روپیہ صرف ہوتا ہے اس کی ہمت کے آگے فیاضیان گذشتہ پر حرف ہے”
جیسا پہلے بیان کیا گیا، تعزیہ داری میں نوابوں کی بذات خود شرکت اور کثیر زر پاشی نے سنی شیعہ امیر غریب نائی قصائی یہاں تک کہ ہندوؤں کو بھی تشویق دی کہ وہ اس کام میں حصہ ڈالیں۔
اودھ کی مشہور ڈومنی کریمن جس کی رسائی محلات تک تھی اس کو بھی شوق ہوا کہ وہ تعزیہ داری کرے تو اس نے بھی دھوم دھام سے تعزیہ داری کی۔ کریمن نے اپنے تعزیے میں یہ جدت کی کہ صرف عورتیں ہی شرکت کرتیں۔ ۱۳؍ محرم کو رات گئے اس وقت تعزیہ اٹھایا جاتا جب سڑکوں پر سناٹا ہو جاتا صرف عورتیں تعزیہ میں شرکت کرتیں۔ جلوس مختصر ہوتا ،جلوس کے آگے اور پیچھے شاہی سپاہی موجود ہوتے۔ عہد واجدی تک یہ تعزیہ اسی خدم و حشم سے اٹھتا رہا۔ اس کے بعد ایک نائی نے تعزیہ اٹھانا شروع کر دیا۔
چراغ حسن حسرت اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
“غازی الدین حیدر کی بیگم بادشاہ بیگم نے جو مبشر خان نجومی کی بیٹی تھی، سب سے پہلے امام مہدی کی ولادت کا تیوہار منانا شروع کیا، جو ماہ شعبان میں دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ یہاں تک تو خیر تھی لیکن بادشاہ بیگم نے کچھ عرصے کے بعد ایک اختراع فرمائی یعنی شرفا کی خوبصورت اور کمسن لڑکیوں کو گیارہ اماموں سے منسوب کر کے انہیں الگ الگ مکانوں میں رکھا۔ یہ لڑکیاں اچھوتیاں کہلاتی تھیں۔ ہر اچھوتی کی خدمت کے لیے متعین خادمائیں مقرر تھیں اور وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کرتی تھیں۔ صرف حضرت علیؓ سے کوئی اچھوتی منسوب نہیں کی گئی۔ کیونکہ اس طرح حضرت فاطمہؓ کی شان میں گستاخی ہوتی تھی۔
اچھوتیاں چونکہ ائمہ سے منسوب تھیں اس لئے شادیاں نہیں کر سکتی تھیں۔ ایک اچھوتی نے اس قید تنہائی سے نجات حاصل کرنے کے لیے عجیب طریقہ اختیار کیا یعنی ایک مرتبہ پچھلے پہر اٹھ کر رونا پیٹنا شروع کردیا۔ محل کی عورتیں جمع ہوگئیں۔ بادشاہ بیگم کو خبر ملی وہ بھی آئیں اور پوچھا کیا ہوا۔ اچھوتی نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ امام علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں اور نہایت بلند آواز میں مجھ سے کہہ رہے ہیں، جا میں نے تجھے طلاق دی۔ میری آنکھ کھلی تو میں نے رونا شروع کردیا، کیونکہ امام کے نکاح سے خارج ہونے کے بعد دین و دنیا میں میرے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ بادشاہ بیگم نے یہ سن کر اس اچھوتی کو اسی وقت پالکی میں سوار کیا اور سامان سمیت اس کے والدین کے گھر بھجوا دیا”
نصیر الدین حیدر جو غازی الدین حیدر کے بعد تخت پر بیٹھا، ان بدعات میں بادشاہ بیگم سے بھی بڑھ گیا۔ وہ صبح دولت نام کی ایک خواص کے بطن سے تھا ، لیکن بادشاہ بیگم نے اسے اپنے بیٹوں کی طرح پالا تھا۔ اس لیے بچپن میں جو دیکھا تھا اس کا نقش ایسا گہرا تھا کہ حکومت ہاتھ آئی تو خود بھی اس قسم کی حرکتیں شروع کردی۔ اس نے بھی اپنی ماں کی طرح گیارہ اچھوتیاں جمع کیں جو گیارہ اماموں سے منسوب تھیں۔ ان کے لیے بھاری بھاری جوڑے اور زیور تیار کرائے۔ جب کسی امام کی ولادت کا دن آتا تھا تو بادشاہ اپنے آپ پر حاملہ عورت کی سی کیفیت طاری کر لیتا۔ اس طرح روتا اور کراہتا کہ گویا سچ مچ درد زہ میں مبتلا ہے۔ مبارک سلامت کا غل مچتا۔ زچہ گیریاں گائی جاتیں۔ چھ دن بادشاہ زچہ خانے میں رہتا۔ جو مقوی دوائیں اور کھانے زچاؤں کو دیے جاتے ہیں، وہ سب بادشاہ کو کھلائے جاتے۔ لکھنؤ میں ایسے موقعوں پر بڑے تکلفات ہوتے ہیں اور بہت سی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ اس موقع پر یہ تمام رسمیں ادا ہوتیں۔ چھٹے دن بادشاہ غسل کرتا۔ جب غسل کرکے باہر نکلتا تو کنیزیں ایک مرصع گڑیا اس کو تھما دیتیں۔ رات ہوتی تو بادشاہ زنانہ لباس پہنے گڑیا کو گود میں لیے لنگڑاتا ہوا تارے دیکھنے نکلتا۔ اب کھانے تقسیم ہوتے۔ گویوں کی تانوں اور مبارک سلامت کی صداؤں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔
اس رسم سے فراغت ہوتی تھی تو بادشاہ محافہ پر سوار باجے گاجے کے ساتھ شہر میں نکلتا۔ آگے آگے ہاتھی ہوتے تھے۔ ان کے پیچھے سواروں کے پرے، پیدلوں کی پلٹنیں۔ پیچھے بادشاہ کا محافہ جس کے داہنے، بائیں سوار ہوتے تھے۔ امراء دربار اور معززین۔ غرض اس شان سے بادشاہ سارے شہر کا چکر لگا کے پھر شاہی محل میں داخل ہوتا۔
نصیر الدین حیدر نے ایک دفعہ امام حسین کا مصنوعی جنازہ تیار کیا اور حضرت سلطان العلماء کو نماز جنازہ کے لیے طلب فرمایا۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ میری کیا مجال، امام کی نماز جنازہ تو امام ہی پڑھا سکتا ہے۔
(جاری)