دیوالی
دیوالی دراصل دیپاولی کا مختصر نام ہے جس کے لغوی معنی دیوں کی قطار ہوتا ہے اور اس لیے اسے روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے۔
ہندوستان کا ہر تہوار تاریخی، مذہبی اور ثقافتی پس منظر رکھتا ہے اور دیوالی بھی اس سے علیحدہ نہیں۔
دیوالی وہ خوبصورت رات ہے جب شری رام اور ان کی زوجہ سیتا 14 سال تک شہر بدر رہنے کے بعد واپس اپنے شہر ایودھیا آئے۔
راجا دشرتھ نے رام چندر جسے ہندو بھائی وشنو بھگوان کا ساتواں اوتار مانتے ہیں کو اپنا جانشین بنانے کا ارادہ ظاہر کیا اور ولی عہد بنانا چاہا تو راجا کی بیوی کیکیئی نے جو کہ رام چندر کی سوتیلی ماں تھی اسے اپنا عہد یاد دلایا ۔ راجا دسرتھ کی چھوٹی رانی کیکیئی نے کسی جنگ میں راجا کی جان بچائی تھی جس پر راجا نے وعدہ کیا تھا کہ اس کے بدلے میں وہ اس کی ایک خواہش پوری کرے گا۔
کیکیئی کی خواہش تھی کہ اس کے لڑکے بھرت کو راجہ اپنا ولی عہد نامزد کرے۔ اور رام چندر جی کو چودہ برس کا بن باس دے دیا جائے۔ راجا نے رام چندر جی کو کیکیئی کی خواہش اور اپنے عہد سے آگاہ کیا تو سعادت مند بیٹے نے سر تسلیم خم کر دیا اور جنوبی ہند کے جنگلوں میں چلا گیا۔
اس برے وقت میں رام کی بیوی سیتا نے اپنے شوہر اور ان کے بھائی لکشمن نے بھی اپنے بھائی کا ساتھ دیا اور وہ بھی جنگل چلے گئے۔
انہوں نے کافی عرصے تک جنگل میں وقت گزارا۔
پھر ایک دن لنکا کے راجا راون کا اس جنگل سے گزر ہوا اور اس کی نظر سیتا پر پڑی۔ وہ سیتا کو اٹھا کر لے گیا۔ رام چندر نے بندروں کے راجا سکریو کی فوج جس کا سپہ سالار ہنومان تھا سے مدد طلب کی اور اس کی مدد سے لنکا پر چڑھائی کی اور راون کو ہلاک کرکے سیتا کو رہا کرایا۔ دسہرا کا تہوار اسی یاد میں منایا جاتا ہے۔
اس عرصے میں 14 سال بھی پورے ہو گئے تھے
شری رام کے بھائی کا نام بھرَت تھا۔ بھرت اپنے بھائی سے محبت کرتا تھا۔ 14 سال تک اس نے نظام حکومت چلایا لیکن تخت پر نہیں بیٹھا اور اس نے اپنے بھائی کی کھڑاویں تخت پر رکھ دیں۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ یہ بادشاہی رام کی امانت ہے کیونکہ وہی اس کا حقدار ہے۔
جب رام واپس ایودھیا آئے تو ان کی آمد کی خوشی میں سب نے پورا شہر روشن کر دیا۔ اور رام اپنے تختِ حکومت پر وہی کھڑاویں پہن کر براجمان ہوئے۔
مہا بھارت کے اوراق ایک دوسری کہانی کا ذکر کرتے ہیں۔ جب پانڈو اپنے بھائیوں کورو کے ہاتھوں قماربازی میں ہار گئے تو انھیں کوروؤں نے 13 سال کی جلاوطنی کا حکم سنایا تھا۔ زندگی کے 13 سال جنگلوں کی خاک چھاننے کے بعد جب پانڈو اپنے وطن ہستناپور (اب دہلی) پہنچے تو لوگوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہستناپور پھولوں اور دیوں سے سجایا گيا۔یہ دیوالی کا ہی دن تھا۔
بعض مولوی حضرات کے فتوے کے مطابق غیر مسلم کو ان کے تہوار کی مبارکباد دینا جائز نہیں۔ لیکن مسلمان ان کی طرف سے پیش کردہ مٹھائی کھا سکتے ہیں اگر پتا ہو کہ حلال اجزاء سے بنی ہے۔
اگر آپ کے پڑوس میں کوئی ہندو رہتا ہے اور اس نے مٹھائی بجھوائی ہے تو جو لوگ فتوی پر چلتے ہیں ان کو مٹھائی مبارک۔ اور جو لوگ وسیع القلب ہیں۔ ان کو اور تمام ہندو بھائیوں کو دیوالی کی شبھ کامنائیں۔
ابو جون رضا