یہ نظر میرے پیر کی

کسی شہر میں حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی قدس اللہ سرہ النورانی کا ایک عقیدت مند رہتا تھا اس نے سلسلہ عالیہ قادریہ میں داخل ہونے کا ارادہ بھی کر رکھا تھا اسی غرض سے ایک روز وہ دور دراز کا سفر طے کر کے بغداد شریف پہنچا تو اس کو معلوم ہوا کہ حضرت سیدناغوث اعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا انتقال ہوچکا ہے۔

آخر اس نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی قبر مبارک کی زیارت کرنے کا ارادہ کیااور قبر مبارک پر حاضر ہو کر آداب زیارت بجا لایا، توکیادیکھتا ہے کہ حضور غوث اعظم اپنی قبر سے باہر نکلے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی توجہ سے نوازا اور اپنے سلسلہ عالیہ قادریہ میں داخل فرمالیا۔

(تفریح الخاطر، ص۱۸۹)

اس طرح کے قصے خوش عقیدہ مسلمانوں کے یہاں بہت ملیں گے۔ بس ناموں کا فرق ہوگا باقی کہانیاں ایک جیسی ہی ہونگی

تصوف کے ایک سلسلے کے مریدوں کا ماننا ہے کہ اگر آپ نے ان کے شیخ کی بیعت کی ہوئی ہے تو موت کے وقت شیخ کی زیارت ہوگی۔ وہ آپ کے لیے رسول اکرم سے سفارش کردیں گے اور ملک الموت آپ کی روح انتہائی سہولت سے قبض کرے گا۔

ان کا ماننا ہے کہ بارہا دیکھا گیا کہ ان کے حلقے کے کسی شخص پر جانکنی کا عالم طاری تھا کہ اچانک مرنے والے نے کہا کہ میرے شیخ آگئے اور اس کا چہرہ پرسکون ہوگیا اور اس نے آرام سے جان ، جان آفرین کے سپرد کردی۔

بم بلاسٹ، گولی دل کے آر پار ہوجانے یا ایسی اموات جن میں انسان چشم زدن میں ختم ہوجاتا ہے اس وقت پیر صاحب کی ایمرجنسی سروس مہیا رہتی ہے یا نہیں اس کا ابھی تک کوئی تجربہ کم از کم مجھ جیسے گنہگار طالب علم کے علم میں نہیں آیا۔

کمال یہ ہے کہ مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں سب کے موت کے وقت حاضری کی مقدس ہستیاں الگ الگ ہیں۔ کسی کے پاس حضرت علی حاضر ہوجاتے ہیں تو کسی کو رسول اکرم کی زیارت کروائی جاتی ہے۔ تو کوئی کسی صوفی بزرگ کی زیارت کرتا ہے۔ اور یہ سب باتیں ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جس کو وہ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

سکرات موت ایک حقیقت ہے جس کی طرف قران کریم نے بھی سورہ ق میں اشارہ کیا ہے ۔اور یہ کیفیت رسول اکرم پر بھی طاری ہوئی تھی جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔

لیکن قران کریم نے اس سے ہٹ کرکسی مقدس شخصیت کے موت کے وقت روحانی طور پر پہنچ جانے اور اپنے ماننے والے کو جنت میں داخل کردینے کا ذکر نہیں کیا۔

تراشیدہ قصوں کی اسیر قومیں جب تک زندہ رہتی ہیں تب تک ان کے کان رجال الغیب کی قدموں کی آہٹ پر لگے رہتے ہیں کہ کب کوئی آکر ان کو اوج ثریا پر بٹھائے گا اور مرتے وقت اپنی اپنی مقدس ہستیوں کی آمد کا خیال ان کو مطمئن رکھتا ہے کہ جنت ان کی آنکھ بند ہونے کی منتظر ہے۔

حیرت ہے کہ پھر بھی جان دینے کو آسانی سے کوئی راضی نہیں ہوتا۔

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

ابو جون رضا
abujoanraza.com

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *