خاندان سید الشہدا نے مدینے سے مکے کی جانب سفر کے آغاز میں ہی عمرہ مفردہ کی نیت کی تھی۔ حج تمتع کا قصد نہیں کیا تھا۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ حسین ابن علی بن ابی طالب حج تمتع کے قصد سے مکہ گئے ہوں۔ اور پھر بدنام زمانہ اموی حکومت کے دباؤ میں آکر حج تمتع کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کرلیاہو۔ نہ تو روایات میں ایسی کوئی بات ملتی ہے اور نہ ہماری فقہ میں۔ مقاتل میں اس مطلب کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ ہمارے بزرگان فقہ بھی اس نکتہ کی طرف متوجہ رہے ہیں کہ اس بات کی نہ تو کوئی روائی بنیاد ہے اور نہ فقہی۔ بلکہ حسین ابن علی بن ابی طالب کا شروع سے ہی عمرہ مفردہ کا قصد تھا۔ وہ منی نہیں گئے لیکن قربانی دی ہے۔
ان کے فرزند گرامی امام سجاد شام میں اس طرح اپنا تعارف کرواتے ہیں۔
” میں مکہ اور منی کا فرزند ہوں۔ ہم نے جان دی ہے۔ منی ہمارا ہے۔ عرفات ہمارا ہے۔ مکہ کا تعلق ہم سے ہے۔ میں زم زم کا فرزند ہوں۔ زم زم اور منی میری وراثت ہیں۔ میں مکہ کا وارث ہوں۔ میں عرفات کا وارث ہوں، معشر و منی کا وارث ہوں”
( اسرار حج از آیت اللہ جواد عاملی ، پانچویں فصل، عرفات اپنے آپ سے ہجرت کی سرزمین)
ابو جون رضا