دین کی بنیاد تراث پر قائم نہیں ہوتی۔ دین کی بنیادیں وحی پر کھڑی ہوتی ہیں۔ تراث کسی قوم کا اجتماعی خزینہ ہوتا ہے جس میں مختلف ماخذ سے دنیا جہاں کی چیزیں ہمارے اجتماعی شعور میں داخل ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں حکمت کی باتیں بھی ہوتی ہیں اور الم غلم قسم کے رطب و یاس بھی۔
اہل علم کا کام ہے کہ وہ رطب ویاس پر لوگوں کو مطلع کرتے رہیں۔ لوگوں کے اذہان کو اس نہج پر لے ائیں کہ وہ الم غلم باتوں کو قبول نہ کریں۔
ہر کوئی کتابیں نہیں پڑھتا۔ ہر ایک کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ ادبی یا دینی محافل میں شرکت کرے۔
لیکن سال میں کچھ وقت ہر انسان چاہتا ہے کہ اپنے ذوق کی نذر کرے، کچھ نیا سیکھے۔ کوئی اچھی بات اس کو پتا چلے۔ وہ وقت نکال کر محافل میں شریک ہوتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ منبر پر ایسے لوگ آکر بیٹھ گئے جن کی میمیکری بنا کر لوگ خوش ہوتے ہیں۔ جن کی طفلانہ باتیں مسخروں سے تشبیہ دی جاتی ہیں۔ جن کو سن کر لوگ متنفر ہوتے ہیں۔ اور ان سے کچھ بھی علم حاصل نہیں ہوتا۔
زوال زدہ قومیں ایسی باتوں کی خوگر ہوجاتی ہیں اور انہیں ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ پھر وہ یہ سوچ کر خوش رہتی ہیں کہ کسی بھی رسم یا فضول عمل سے کچھ ملے نہ ملے ، ثواب ضرور مل جائے گا، جنت مل جائے گی اور نفس کو اطمینان حاصل ہوجائے گا۔
خدا سے دعا ہے کہ ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں ، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com