تہذیب و سوچ کی داستان
ول ڈیورانٹ نے انسانی تاریخ پر گیارہ جلدوں میں کتاب مرتب کی ہے۔ جن میں مختلف تہذیبوں اور اقوام کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ عظیم تاریخ نویس ہیروڈوڈس نے بھی کئی جلدوں پر اسی طرز کی کتاب لکھی ہے مگر ان میں قصے کہانیاں زیادہ ہیں۔ وہ تاریخ کم اور کہانیوں کی کتاب زیادہ لگتی ہے۔
ول ڈیورانٹ کی کتاب کے مختلف حصوں کے الگ الگ ترجمے ہوئے ہیں جو مارکیٹ میں مختلف ناموں سے موجود ہیں۔ ایک جلد پر مشتمل ہند کی تاریخ اور تہزیب پر کتاب میں نے پڑھی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی۔ یہ کتاب جو یاسر جواد کے ترجمے سے شائع ہوئی ہے اس میں روم، یونان ،عرب اور نشاط ثانیہ کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مطالعے کے قابل کتاب ہے۔
یونان کا ادبی ورثہ
عقیل روبی نے یونان کا ادبی ورثہ کے عنوان سے کتاب لکھی اور بہت اچھے انداز میں یونان کے شعراء اور ادب کو پیش کیا۔ میں نے اس کتاب میں سے اقتباسات اپنی فیملی کو رات کی محفل میں پڑھ کر سنائے جو ان کو بھی بہت پسند آئے۔ خاص کر ٹرائے کی جنگ اور ہومر کا بیان بہت اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
داستان دانش
خلیفہ عبدالحکیم صاحب نے یونان کے اہل دانش کا اس کتاب میں تذکرہ کیا ہے۔ کتاب کی زبان تھوڑی ثقیل ہے اور فلسفہ سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب پسند آئے گی۔ اس کتاب میں افلاطون کی جمہوریہ کا ملخص بہت اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ صفحہ 76 سے شروع ہوتا ہے اور 108 پر ختم ہوتا ہے۔ اگر کوئی پوری کتاب نہ بھی پڑھنا چاہے تو کم از کم یہ صفحات ضرور پڑھے۔ سوچ کو وسعت عطا کرنے والی گفتگو پیش کی گئی ہے۔
در ادراک
آلدوس بکسلے کی یہ ایک مختصر کتاب ہے جس میں اس نے صوفی ازم کا حیاتیاتی پس منظر پیش کیا ہے۔ میکسکو کے قدیم انڈین باشندے ناگ پھنی کی ایک قسم کو بطور غذا استعمال کرتے تھے جسے پے یوتے کہتے ہیں اور اس کا ایک دیوتا کی طرح احترام کرتے تھے۔
اس پودے کے احترام کا راز اس وقت فاش ہوا جب اس پر ماہر نفسیات افراد نے تجربات کیے اور بتایا کہ اگر اس کا مناسب استعمال کیا جائے تو یہ شعور کی کیفیات پر گہرا اثر کرتی ہے۔ اس کا تجربہ مصنف نے بھی کیا اور پھر اپنے احساسات کو بیان کیا۔
پچھلے دنوں نیورو ساٸنس میں جو تحقیقات ہوٸی ہیں اس نے بھی تصوف کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ اب ملاۓ اعلیٰ کی سیر کے لٸے نفی و اثبات کی ورزش کی کوٸی ضرورت نہیں اور نہ ہی رگِ کیماس پکڑ کر مرغ کی طرح اللہ ھو کے بانگ دینے کی ضرورت ہے، بس ہیروٸن کا ایک انجیکشن لیجٸے اور چشمِ باطن سے ارض و سماوات کی سیر کر آٸیے۔ دماغ میں سیروٹونین کی سطح اگر بلند رہے تو سرشاریٕ اعتماد کی اس کیفیت میں سلطانی مااعظم شانی یامانی جبتی الا للہ یا براہ راست انا الحق کا نعرہ بلند کیجٸے اور اگر سطح نیچے چلی گٸی ہو تو خود کو حقیر فقیر سراپا تقصیر ملامتی فرقہ کا ایک رکن جانٸیے۔ گویا ادویات نے ان مشکل روحانی تجربات کو جس میں سالک کو ایک عمر گزارنی پڑتی تھی اب آپ کی دہلیز پر لا کر رکھ دیا ہے۔
سفر آدھی صدی کا
عبدالکریم عابد صاحب کی کتاب پاکستان بننے سے پہلے اور بعد کے واقعات کو بیان کرتی ہے جس میں مصنف نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو بیان کیا ہے۔ شگفتہ انداز ہے اس لیے موضوعات کا چناو بھی اچھا کیا گیا ہے۔ ہر موضوع پر دو یا تین صفحات سے زیادہ بات نہیں کی گئی جس کی وجہ سے قاری بور نہیں ہوتا۔ بیوی کو مرشد بنا لیا، تصوف مخالف صوفی اور جاسوسی ادب کا مطالعہ پڑھنے کے لائق موضوعات ہیں
کاغذ کی یہ مہک ، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
ابو جون رضا