اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کے قائلین جس شد و مد سے اس کے قائم کرنے پر اصرار کرتے ہیں اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ اسلام کا اصل مقصد اسلامی حکومت اور نظام کا نفاذ ہے۔ جب کہ اس نظریے کے مخالف اسکالرز کہتے ہیں کہ قران و سنت سے اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد انفرادی طور پر ہر شخص کو آخرت کی یاد دہانی اور تزکیہ کی تعلیم دینا تھا۔
اہل تشیع میں امام خمینی کے ولایت فقیہ کے نظریے کے مخالفین کا بھی یہی کہنا ہے کہ فقیہ کی ولایت کا تصور متقدمین میں موجود رہا ہے مگر اس کی ولایت مطلقہ اور سیاسی طور پر حکومت کی باگ دوڑ خود سے سنبھالنے کا زکر کہیں نہیں ملتا۔ اہل تشیع کے ائمہ میں سے صرف حضرت علی کے ہاتھ میں زمام حکومت آئی۔ باقی ائمہ حکومت نہ ملنے کے باوجود بھی امام رہے۔
امام خمینی نے اسی ولایت فقیہ کا نعرہ لگا کر شاہ کو معزول کیا تھا۔ ان کے مطابق ملک میں ایک ایسا نظام قائم ہونا چاہیے جس میں حکومت کی باگ دوڑ مجتہد جامع الشرائط کے ہاتھ میں ہو جو فقہ جعفریہ کو ملک میں نافذ کرے۔
مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب انقلاب سے متاثر لوگ دوسرے ممالک میں بھی حکومت مخالف تحریک کا اجراء کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا پر ان کے ولی فقیہ کی حکومت ہونا چاہیے اور اگر ولی فقیہ حکم دے تو کم از کم شیعہ مسلمانوں کو اس کے حکم کو بجا لانا چاہیے، چاہے وہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس وجہ سے دوسرے ممالک خاص طور پر پاکستان میں شیعہ افراد ہمیشہ حکومت مخالف زہن رکھتے ہیں اور الیکشن کا بائیکاٹ یا ووٹ کاسٹ نہ کرنا اور قومی سیاسی دھارے سے اس اقلیتی گروہ کا الگ ہونا ایک عام بات ہے۔
پاکستان مین اہل تشیع کے کٹر مخالف افراد نے ان کی مخالفت میں سعودی عرب کے شاہی نظام کو سپورٹ کیا اور خادم الحرمین الشریفین کے مزہبی تقدس کو اجاگر کیا۔
اس بیانیہ کے مخالف اسکالر سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا مزہب صرف اسی وقت نافذ العمل ہوتا یے جب اس کے پاس قوت نافذہ ہو؟ جن ممالک میں مذہب قوت نافذہ کے طور پر موجود ہے وہ بھی انسانیت کے سامنے کوئی بہتر ماڈل پیش نہیں کرسکے۔ باقی مذاہب تو دور کی بات صرف اسلام کو بطور مثال لیجئے۔ کیا مسلمان خلفاء راشدین اور پھر عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ کسی حکومت کے افعال کو بطور افتخار پیش کرسکتے ہیں؟ بنو امیہ اور بنو عباس کی حکومتوں کے دور میں ظلم و بربریت کی داستانوں سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
جبکہ اس کے برعکس علماء، فقہاء صوفیائے کرام اور وہ تمام اسکالرز جو حکومت سے دور رہے ان کے کارنامے تاریخ میں موجود ہیں اور وہ مسلمانوں کے لیے وجہ افتخار ہیں۔
سوال اب یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نظام کے نفاظ کی تعبیر اگر غلط تھی تو یہ بیانیہ اتنا مقبول کیوں ہوا؟
اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مغربی اور یورپی ممالک کے تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے بعد مسلمان رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوگئے۔ انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان کو منتخب کرنے کے بجائے مسلح جدوجہد کے راستے کو چنا اور یہ سمجھا کہ مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب ان کا تلوار ہاتھ سے رکھ دینا یے۔
جن ممالک میں اس بیانیہ کو سیاسی طور پر جدوجہد کے معنوں میں اختیار کیا گیا وہاں حالات پھر بھی نارمل رہے لیکن جن ممالک میں اقتدار غیر مسلموں کے ہاتھ میں تھا وہاں جہادی تنظیموں نے اپنی جگہ بنائی۔ یہاں تک کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کے ایک امیر نے مشہور جہادی تنظیم کے سربراہ جن کو پاکستان میں امریکہ نے قتل کردیا تھا ،ان کو شہید قرار دیا۔
سب سے آخر میں اپنے قارئین کی خدمت میں ایک سوال پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر مولانا مودودی اور ان کے معاصرین کے اسلامی حکومت کے نفاذ کے نظریے کے بجائے مولانا وحید الدین خان اور ان کے رفقاء کا دعوت اور امن کا نظریہ اسلامی دنیا میں رائج ہوتا تو مسلمان آج کہاں کھڑے ہوتے؟
(ختم شد)
ابو جون رضا
Massallah bohot acha
Massallah
بہترین