✨ منبر، علم، اور صداقت کی پکار

کل ماجد رضا عابدی کے حوالے سے ایک سوال گردش میں رہا:

“اُن کی علمی قابلیت کیا ہے؟ انہوں نے دینی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟”

اس پس منظر میں ، میں نے مناسب سمجھا کہ اپنا تعلیمی و روحانی سفر اپنے احباب سے شئیر کروں، ایک سفر جو ابھی جاری ہے۔

اگر اللہ نے چاہا تو ان شاء اللہ:

تین سال بعد مجھے اجازہ روایت حاصل ہوگا،

چار سال بعد المورد کی جانب سے عالم کی سند تفویض کی جائے گی،

نجف اشرف سے عمامہ پہننے کی اجازت حاصل ہوگی،

اور اگر پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی تو “ڈاکٹر” کا شرف بھی میسر آ جائے گا۔

یہ خواب ہیں، جن کی تعبیر اللہ کی مدد، اخلاص، اور مسلسل ریاضت کے بغیر ممکن نہیں۔

🌿 جو عزت کا طالب ہو، اُسے جان لینا چاہیے کہ عزت کا سرچشمہ صرف اللہ کی ذات ہے۔

📚 علم کی راہ اور روایت کی ذمہ داری

علم، عاجزی سے حاصل ہوتا ہے۔ دل زخمی ہوتا ہے جب قرآن کے زندہ اور ہمہ گیر پیغام کی جگہ، منبر سے ایسی روایات سنائی جاتی ہیں جن کی سند ہوتی ہے، نہ درایت کا وقار۔

روایت کا معصوم تک پہنچنا، اس کی صحت کا اطمینان، رجال کے اقوال، اور درایتی تجزیہ، یہ سب ایک باقاعدہ فن ہے۔ ایسا فن جس میں عمریں کھپ جاتی ہیں۔

ہمارے ہاں عموماً اردو کی چند معجزاتی کتب، مناقب و فضائل کے مجموعے، یا عمومی سیرت کی کتب ہی منبع علم بن جاتی ہیں، اور خطباء انہیں حوالہ بنا کر منبر پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔

اگر آپ کسی خطیب سے پوچھ لیں:

جو روایت آپ نے بیان فرمائی

اس روایت کی سند کیا ہے؟

کیا یہ روایت معصوم تک معتبر سند سے پہنچ جاتی ہے؟

علم رجال کے ماہرین نے اس پر کیا تبصرہ کیا ہے؟

درایتی طور پر یہ روایت قرآن یا سنت سے متصادم تو نہیں؟

تو اکثر اوقات یا تو خاموشی چھا جاتی ہے، یا غصہ بھڑک اٹھتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کہا جاتا ہے:

“یہ فلاں کتاب میں لکھی ہوئی ہے”

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محض کسی کتاب میں لکھا ہونا، حجت کے لیے کافی ہے؟

😔 کچھ مثالیں :

مجھے ایک موقع پر ایک خطیب کی زبان سے یہ روایت سننے کو ملی:

“امام حسینؑ نے مجلس میں گریہ کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے۔”

میں نے ادب سے عرض کیا:

“یہ بات امام حسینؑ نے کس سے کہی؟ ان کی ظاہری حیات میں تو مجلس کا تصور بھی نہیں تھا۔ اگر دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد کہی گئی، تو پھر راوی کون ہے؟ گواہ کون ہے؟”

جواب آیا:

“ممکن ہے کسی کے خواب میں آکر فرمائی ہو”

میں نے مؤدبانہ عرض کی:

“خواب شریعت میں حجت نہیں ہیں، نہ اصول میں، نہ فروعات میں”

فرمایا گیا:

“علماء اگر کوئی خواب دیکھتے ہیں تو وہ خواب سچا ہوتا ہے”

اس کا کیا جواب دیا جائے؟

سوائے خاموشی کے کوئی چارہ نہ تھا۔

اسی طرح ایک روایت جو منبروں سے بارہا سنائی جاتی ہے:

“اگر کوئی شخص امام حسینؑ کے غم میں مچھر کے پر کے برابر بھی روئے، تو جہنم کی آگ اس پر حرام ہو جاتی ہے”

یہ روایت اکثر مثال کے طور پر درایت کے اصولوں کی کتب میں پیش کی جاتی ہے کہ اس طرح کی روایت باآسانی پہچانی جا سکتی ہے کہ موضوع (وضعی) ہے۔

ایسی سینکڑوں مثالیں البدایہ فی علم الدرایہ اور دیگر بنیادی احادیث کی کتب میں موجود ہیں، جو علمِ حدیث کے طلبا کو ضعیف اور جھوٹی احادیث کی پہچان کے لیے پڑھائی جاتی ہیں۔

پچھلے سال ہم نے حدیث کے دروس میں پڑھا کہ کس طرح سے صحیح روایت کے ایک لفظ کو بدل دینے سے پورے معاشرے کے ڈائنامکس تبدیل ہوگئے۔ لوگ اس روایت کو جس طرح سے سمجھ کر عمل کرتے رہے، اس کے بیچ کے الفاظ بدل دینے سے سارا مطلب ہی بدل گیا تھا۔ یہ بات لوگوں کو پتا ہی نہیں تھی۔

🔥 جان لیجئے

منبر، لکڑی کا بنا ہوا ایک ڈھانچہ نہیں ہے۔ یہ آگ کی مسند ہے اگر اس پر جھوٹ بولا جائے۔

رسول اکرم ﷺ کی روایت، جو شیعہ و سنی دونوں مکاتب میں متواتر اور صحیح السند ہے:

“من كذب عليّ متعمداً فليتبوأ مقعده من النار”

“جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔”

(متفق علیہ)

مجھے یاد ہے کہ میں نے خود ایک بزرگ مجتہد کو منبر پر کتاب کھول کر روایت پڑھتے دیکھا۔ وہ اس قدر حساس تھے کہ کوئی لفظ اپنی طرف سے معصوم کی طرف منسوب نہ کردیں۔

یہی تقویٰ ہے، یہی علم ہے۔

❓ خود سے پوچھیے؟

میرا سوال بہت سادہ ہے، مگر نہایت سنجیدہ:

ہم نے منبر پر کس کو بٹھایا؟

کیا ہم نے منبر کو عوامی جذبات سے کھیلنے کا پلیٹ فارم بنا دیا ہے؟

کیا ہر سال ہمارے گھروں سے ایک نیا جھوٹ تراشنے والا خطیب معاشرے میں پیدا ہوتا ہے؟

کیا ہم اس خطرناک کھیل کا حصہ بن چکے ہیں، جس کا انجام تباہی ہے؟

خدارا، آنکھیں کھولیے!

سوالات کی اجازت دیجیے!

منبر کو تحقیق کا، تقویٰ کا، اور حق کا سنگھاسن بنائیے،
قصے کہانیوں کا نہیں۔

📖 قرآن کی گواہی:

“وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ”

“قیامت کے دن تم دیکھو گے کہ جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا، ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے؟”

“وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ…..”

“اور اہلِ تقویٰ کو ان کی کامیابی کے سبب اللہ نجات دے گا”

(سورہ الزمر: 60-61)

📌 اہلبیت سے نادانی میں دشمنی نہ کیجئے، علم کی شمع کو بجھنے نہ دیں، دل سے , جگر سے سینچیے۔ جھوٹ کے گرداب میں سچ کا چراغ مت بجھنے دیجیے۔

اسی میں ہم سب کی فلاح ہے۔

ابو جون رضا

2 thoughts on “✨ منبر، علم، اور صداقت کی پکار”

  1. Mai smjhti hon sirf sahib mimber ka hi nhe audience b mujrim hain jinho ny taasub, jhoot, biddat, ghulu ko bardsht kia balki baaez NY is ko Sach mana.
    Girya k kafiyait ko Kuch sahib e mimber hazraat NY shola bayani, jazbati speech tak mehdood krdia hai .Sach bolnay k bajay ( kia Pasand kia jayga) Socha jata hai.aisi kahaniyan gharri jati hain Jo audience ko mutasir kerin khowa aunki tareekhi value ho na ho.i think yeh sub jazbati k sath khailwar hai na ky hidayait ka zariyah.ap sahi khy rahy hain hmare pass ilmi tarbait k idharay bhot weak hain.kuch mimber nasheeno NY afsana goei ko maharat bana Lia hai is k example apko Punjab k zakireen ki surat Mai fb per nazar aajati hogi
    Mimber ek sharait, ijtamai aur ikhlaqi fareeza hai ab yeh Baat koi nhe sochta

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *