میں ان دنوں بیک وقت کئی اہم علمی و عملی محاذوں پر مصروفِ کار ہوں۔
بینک جس میں میری پیشہ ورانہ وابستگی ہے، وہ اس وقت کنوینشنل بینکنگ سے اسلامی بینکنگ کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ اس تبدیلی کے لیے دو سال کا وقت مقرر ہے، اور منیجمنٹ کی بھرپور توجہ اس منصوبے پر مرکوز ہے۔ اس تناظر میں کانٹینٹ ڈیولپمنٹ، تربیتی وڈیوز کی تیاری، اور تدریسی مواد کی تشکیل میرے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
مزید برآں، نو سو سے زائد برانچز کے وہ اسٹاف ممبران، جو روایتی بینکاری نظام سے وابستہ رہے ہیں، اب اسلامی بینکاری کی تربیت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ٹریننگ ڈویژن اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے، اور مجھے ہفتہ بھر اسلامی بینکاری پر تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہنا پڑتا ہے۔
ان علمی و تربیتی کوششوں میں میرے ساتھ دو دیگر رفقاء بھی شامل ہیں، جن کے ناتواں مگر پُرخلوص کندھوں پر یہ بھاری بوجھ آن پڑا ہے۔
علمی سفر
ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ میں المورد لاہور کے ادارہ تعلیم و تحقیق سے قرآن، حدیث، فقہ اور عربی ادب پر مشتمل کورسز میں زیرِ تعلیم ہوں۔ ہفتے میں پانچ دن کی کلاسز کا تسلسل ہے، جن کی وڈیوز میں رات گئے گھر آ کر دیکھتا ہوں، جب کہ اسائنمنٹس عموماً ہفتہ وار تعطیلات میں مکمل کرتا ہوں۔
قرآن فہمی کورس:
ایک سالہ کورس میں درج ذیل اہم متون کا تفصیلی مطالعہ کروایا گیا:
- مقدمہ معارف القرآن
- شیعہ اصولِ تفسیر
- ابتدائیہ تفسیر القرآن – علامہ طباطبائی
- ترجمۃ القرآن بتصریف القرآن – عبداللہ چکڑالوی
- مقدمہ تدبر القرآن – امین احسن اصلاحی
- تفسیر میں حدیث کی اہمیت
- اصولِ تفسیر – سر سید
- اصول و مبادی – میزان
- قرآن و سنت کا باہمی تعلق – امام شافعی
- اصولِ فہمِ قرآن – امین احسن اصلاحی
- اصولِ تفسیر – مولانا مودودی
- علمِ تفسیر – اسلم جیراجپوری
- مقدمہ تفسیر نظام القرآن
- الوجیز فی اصول الفقہ
- نظم قرآن – مولانا حسین الوانی
الحمدللہ، حالیہ نتائج کے مطابق میں نے اس کورس میں 78% نمبر حاصل کیے ہیں اور اگلے سمسٹر میں داخل ہو چکا ہوں۔
حدیث کورس:
حدیث کے باب میں تیسیر المصطلح الحدیث کی تدریس کی گئی، جس میں اصولِ حدیث اور اس کے طبقات پر بھرپور توجہ دی گئی۔
مذاہبِ عالم کورس:
اس کورس میں ہمیں مختلف مذاہب کا تعارف کروایا گیا، جن میں شامل ہیں:
- سناتن دھرم کا تعارف
- مکاتبِ فکر و بھگوان وشنو
- سناتن دھرم کی عبادات
- مذہبی تہوار
- بدھ ازم
- سکھ دھرم
- جوڈازم
- عیسائیت
- تاؤ ازم
- کنفیوشزم
- جین ازم
عربی ادب:
یہ کورس ڈاکٹر ساجد حمید سے پڑھا۔ میرے لیے سب سے پسندیدہ کورس تھا، کیونکہ ہر سبق کے بعد سوال و جواب کا ایک الگ سیشن منعقد کیا جاتا تھا۔
سیرت کورس:
مندرجہ ذیل سیرت کی کتب کا مطالعہ کروایا گیا:
- سیرت ابنِ کثیر
- سیرت النبی – شبلی نعمانی
- الرحیق المختوم
- پیغمبرِ اسلام – ڈاکٹر حمید اللہ
- سیرت النبی – ابن ہشام (جلد اول)
عربی زبان:
کامل کیلانی کی منتخب کہانیاں عربی زبان کے اسباق میں شامل رہیں۔
دیگر علمی ادارے:
- میراثِ انبیاء (حوزہ علمیہ نجف):
گزشتہ دو سال سے اس ادارے سے آن لائن تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ تازہ سمسٹر کا آغاز ہو چکا ہے۔ مضامین میں صرف و نحو، عربی، عقائد اور فقہ شامل ہیں۔
- تبیان یونیورسٹی:
یہاں سے حدیث کا درس لے رہا ہوں، اور اگر اللہ نے چاہا تو دو سال بعد اجازۂ روایت حاصل کرلوں گا۔ ہر ہفتے حدیث کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے، اور نتائج ویب سائٹ پر جاری کیے جاتے ہیں۔
- علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی:
یہاں سے میں بی ایس علومِ شریعہ کر رہا ہوں، جو ان شاء اللہ مجھے ایم فل علوم شریعہ کی راہ پر گامزن کرے گا۔ تین سمسٹرز کامیابی سے مکمل کر چکا ہوں، اور اب صرف دو سمٹر باقی رہ گئے ہیں۔
- IBA ۔ کراچی:
بینک کی طرف سے مجھے ” ایڈوانسڈ سرٹیفیکیشن کورس ، شریعہ اسٹینڈرڈ” میں داخل کروایا گیا ہے۔ ہفتہ اور اتوار اس کورس کی کلاسز میں مصروف رہتا ہوں۔ کورس کا دورانیہ چھ ماہ پر محیط ہے، اور IBA کی انتظامیہ ہر ہفتے کوئز یا ٹیسٹ کے ذریعے ہماری جانچ کرتی ہے۔
میرا نظریہ علم
یہ تمام مصروفیات ہفتے کے ہر دن اور رات کا احاطہ کرتی ہیں۔ میں چالیس برس سے متجاوز ہو چکا ہوں، لیکن علم کی پیاس آج بھی میری رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔
اس تمام علمی جدوجہد میں میرے اہلِ خانہ خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں، جو میری علمی مشغولیات کو برداشت کرتے ہیں، اگرچہ ان کے لیے میرے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے۔
یہ ساری روداد پیش کرنے کا مقصد محض یہ بتانا ہے کہ میری زندگی کا ایک بڑا حصہ، تقریباً تین دہائیاں، دینی علم کے حصول میں صرف ہو چکا ہے۔ میں نے پاکستان کے بڑے اور معتبر اساتذہ سے تعلیم حاصل کی، فلسفہ میں ماسٹرز کیا، لیکن اس کے باوجود خود کو منبر پر بیٹھنے کا اہل نہیں سمجھتا۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح بعض افراد قرآن یا حدیث میں کسی سند یا اجازے کے بغیر منبر پر جلوہ گر ہوتے ہیں، روایتیں سناتے ہیں، اور سامعین دم بخود سنتے چلے جاتے ہیں۔
میری دلی دعا ہے کہ یہ علم کی لگن میری آئندہ نسلوں میں بھی منتقل ہو، اور وہ عقلی استدلال کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔
“وما توفیقی إلا بالله عليه توكلت وإليه أنيب”
ابو جون رضا