نظم قرآن، فکر فراہی اور فکر الوانی پر ایک نظر

قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کے درمیان ربط و مناسبت اور نظم کا تصور ایک علمی موضوع ہے، جس پر برصغیر کے جلیل القدر علماء نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

اس ضمن میں امام حمید الدین فراہی اور مولانا حسین علی الوانی کی فکر نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔

ذیل میں ان دونوں مکاتب فکر کے تصور نظم قرآن کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

فکر فراہی میں نظم قرآن

امام حمید الدین فراہی اور ان کے مکتب فکر کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ قرآن کی ہر سورہ کا ایک متعین نظم کلام اور مرکزی موضوع ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک قرآن کریم متفرق ہدایات کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس کی ہر آیت ایک خاص موضوع سے حکیمانہ ترتیب اور مناسبت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس طرح ہر سورہ ایک حسین وحدت بن جاتی ہے۔

فکر فراہی

فکر فراہی کے مطابق، نظم کلام کی نوعیت کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

سورہ کا موضوع:

ہر سورہ کا ایک موضوع ہوتا ہے جو اس کے تمام اجزا کے لیے رشتہ وحدت کی حیثیت رکھتا ہے اور سورہ کے پورے وجود میں روح کی طرح سرایت کیے ہوتا ہے۔

سورہ کی ساخت:

سورہ میں بالعموم ایک تمہید، اصل مضمون اور ایک خاتمہ ہوتا ہے۔ سورہ کے مضمون کو بعض اوقات فصول (باب) اور پیراگراف میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پیراگراف مضمون کے وقفوں کو اور فصول اس کے تغیرات کو نمایاں کرتے ہیں۔

روابط آیات اور فصول:

آیات اور فصول کا ربط محض تسلسل پر مبنی نہیں ہوتا، بلکہ یہ تمثیل، تعلیل، تاصیل، تکمیل، سوال و جواب، تفریع، نتیجہ، اعتراض، تنبیہ، تقابل، تشابہ، عود علی البدء اور استدراک جیسے پہلوؤں سے باہم دگر متعلق ہوتے ہیں، جو سورہ کو ایک مربوط کلام بناتے ہیں۔

تمثیل (مثال):

بات کو واضح کرنے کے لیے مثالیں پیش کی جاتی ہیں، جیسے سورہ بقرہ میں منافقین کی دو تمثیلیں بیان کی گئی ہیں۔

تعلیل (وجہ بیان کرنا):

کسی حکم یا بات کی وجہ اور دلیل بیان کرنا۔

تدریجی ارتقاء:

سورہ کا مضمون ان پیروں اور فصول میں تدریجی ارتقا کے ساتھ اپنے اتمام کو پہنچتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایک منفرد اور متعین صورت حاصل کرتی ہے اور اپنے وجود میں ایسی وحدت بن جاتی ہے جو ہر لحاظ سے مستقل بالذات اور کامل ہوتی ہے۔

امام حمید الدین فراہی نے ہی اس نظم کو علمی دنیا سے متعارف کرایا، اور ان کے شاگرد رشید امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر “تدبر قرآن” میں اس کی مزید وضاحت کی۔

فکر الوانی میں نظم قرآن۔

مولانا حسین علی الوانی کے نزدیک بھی قرآن کریم فصیح الفاظ، عمدہ معانی اور بہترین نظم و تالیف کے ساتھ ایک معجز کلام ہے، اور اس کی آیات و سورتوں کے درمیان کامل ربط و مناسبت موجود ہے۔

مولانا الوانی کو سورتوں کے خلاصوں اور نظم و مناسبت پر خاص ملکہ حاصل تھا، اور ان کی تفسیری اَمَالی “جواہر القرآن” اور “بلغۃ الحیران فی ربط آیات الفرقان” ان کی فکر کی عکاسی کرتی ہیں۔

مولانا الوانی کے تصور نظم کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:

سورتوں میں گروپ بندی:

مولانا الوانی نے پورے قرآن کو گروپس میں تقسیم کیا ہے، جسے وہ ابتدا میں چار گروپس اور بعد میں پانچ گروپس میں تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔

پہلا گروپ:
سورہ فاتحہ سے سورہ مائدہ۔

دوسرا گروپ:

سورہ انعام سے سورہ بنی اسرائیل۔

تیسرا گروپ:

سورہ کہف سے سورہ احزاب۔

چوتھا گروپ:

سورہ سبا سے سورہ الناس تک (یا حوامیم سے قبل)۔

پانچواں گروپ:

حوامیم (سورہ محمد) سے آخر قرآن تک، جس میں زیادہ تر اخروی تخویفات اور قیامت کا بیان ہے۔

دعویٰ سورہ / عمود (مرکزی مضمون):

مولانا الوانی ہر سورہ کے مرکزی مضمون کو “دعویٰ سورہ” یا “عمود” کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سورہ کے لیے ایسے ہی ہے جیسے درخت کے لیے بیج، جس کا اثر درخت کے ہر پتے اور شاخ میں ظاہر ہوتا ہے، اور اسی سے ایک سورہ دوسری سے ممتاز ہوتی ہے۔

مکمل قرآن کا دعویٰ:

مولانا الوانی کے نزدیک پورے قرآن کا مرکزی دعویٰ (عمود) توحید ہے۔ ان کے مطابق، سورہ فاتحہ میں مذکورہ تمام مضامین اجمالاً اور پورے قرآن میں تفصیلاً بیان ہوئے ہیں۔

ربط آیات میں منہج اور اصول:

مولانا الوانی نے آیات کو سورہ کے دعویٰ سے منسلک کرنے کے لیے چند اصطلاحات متعارف کروائی ہیں، جو دراصل نظم و مناسبت کے اصول ہیں۔

دلیل:

وہ بیان جس سے دعویٰ ثابت کیا جائے، جس کی چار اقسام ہیں: دلیل عقلی محض، دلیل نقلی، دلیل عقلی اعتراف الخصم، اور دلیل وحی۔

تنویر دعویٰ:

منکرین سے دعوی کا ایک حصہ تسلیم کرا کر باقی حصے وضاحت سے بیان کرنا۔

تخویف:

دعویٰ منوانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب سے ڈرانا (دنیوی و اخروی)۔

تبشیر:
ماننے والوں کے لیے انعامات (دنیوی و اخروی) کی خوشخبری کا بیان۔

تنبیہ:

منکرین کے غیر معقول رویوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ

زجر: منکرین دعویٰ کو ان کے غیر معقول مطالبات پر جھڑکنا۔

تسلیہ:

دعویٰ پیش کرنے والوں کو مصائب کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی دینا۔

خلاصہ

فکر فراہی اور فکر الوانی دونوں ہی قرآن کے نظم کو ایک بنیادی اہمیت دیتی ہیں، تاہم ان کے نقطہ ہائے نظر میں بعض فرق ہیں۔ فکر فراہی ہر سورہ کے ایک متعین موضوع اور اس کے اندرونی روابط پر زور دیتی ہے، جبکہ فکر الوانی پورے قرآن کو گروپس میں تقسیم کرنے اور ہر سورہ کے لیے ایک مرکزی دعویٰ (عمود) متعین کرنے کے ساتھ ساتھ آیات کے ربط کو سمجھنے کے لیے مخصوص اصطلاحات متعارف کراتی ہے۔

دونوں مکاتب فکر کا مقصد قرآن کو ایک مربوط اور با معنی کلام کے طور پر پیش کرنا ہے تاکہ اس کے معانی و مقاصد کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور اس کی بلاغت و تاثیر کو نمایاں کیا جائے

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *