
سورہ لقمان کی ان تین آیات پر غور کیجیے۔
وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۳﴾
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۴﴾ ۞ؒ
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھایا اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے (نصیحت یہ کہ)میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو آخر میں) بازگشت میری طرف ہے۔
وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫ وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۵﴾
اور اگر وہ دونوں تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک قرار دے جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ ماننا، البتہ دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا اور اس کی راہ کی پیروی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے، پھر تمہاری بازگشت میری طرف ہے، پھر میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔
ان تین چار آیات میں مقدرات کا ایک جہاں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اگر تفصیل سے بات کریں تو تفسیر بن جائے گی۔ بس مختصر کچھ عرضداشت پیش کرتا ہوں۔
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ شرک کے قریب بھی مت جانا، شرک “ظلم عظیم” ہے۔ پھر دوسری آیت میں انسان کی پیدائش کا بیان ہے۔ جبکہ پہلی آیت میں شرک کی بات ہورہی تھی، یکایک پیدائش کا ذکر کرنا بادی النظر میں کچھ عجیب معلوم ہوتا ہے۔
تفکر کیجیے،
دوسری آیت میں ، پیدائش کے بیان میں ماں کا ذکر ہے جو اولاد کو کوکھ میں تکلیفیں اٹھا کر پالتی ہے۔ ماں ہر انسان کی ایک ہی ہوتی ہے، اس کا شکریہ ادا کرنا انسان کا اخلاقی فریضہ ہے، اسی طرح سے ہر انسان کا پروردگار بھی ایک ہے، اس کا شکر ادا ہر انسان پر واجب ہے۔
جس طرح سے ماں کا مجھے پیدا کرنا، میرے دل میں اس کے لیے اخلاص و محبت پیدا کررہا ہے، اسی طرح سے اس کائنات کا خالق میرے اخلاص کا حقدار کیوں نہیں ہے؟
جب انسان اپنی ماں کی جگہ کسی اور کو نہیں دے سکتا تو خالق کی جگہ کسی اور دینا، کیا “ظلم عظیم” نہیں ہے؟
خدا اگر خالق ہے تو ماں باپ “متولد” ہیں لیکن اس بڑے تعلق کے باوجود ماں کو صرف شکر میں شریک کیا گیا ہے، الہویت میں شامل نہیں کیا گیا۔ اسی وجہ سے اگر ماں باپ بھی انسان کو شرک کا حکم دیں تو ان کا یہ حکم نہیں مانا جائے گا ، باقی ہر بات میں ان کے آگے سر تسلیم کرلیا جائے گا۔
آخر میں انسان کی بازگشت خدا کی طرف ہے، اس طرف اشارہ کرکے بتا دیا گیا کہ شکر ادا کرنے کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا ، غیر کی پرستش کی باز پرس بھی ہوگی۔
جس نے شکر ادا نہ کیا وہ بھی مجرم ہے، جس نے غیر کا شکر ادا کیا وہ بھی مجرم ہے۔
(ہر بات میں غیر کی طرف رجوع کرنے والے، غیروں سے کرم کی دعا کرنے والے ، متوجہ ہوں کہ کس قدر بڑے ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں)
ابو جون رضا