
علامہ قبانجی فرماتے ہیں کہ سائنس مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ سیکولر ازم مذہب کے خلاف ہے۔ مذہب خدا کو محور بتاتا ہے۔ سیکولرازم انسان کو مرکز بتاتا ہے یعنی جو بھی کچھ ہے وہ انسان ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان مرکز ہے مگر اس لیے کہ اس کے دل میں خدا موجود ہے۔ انسان اور خدا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
انسان کے دل میں خدا موجود ہے یہ وہی “نفخت فیہ من روحی” ہے جس کو انسان کے دل میں القاء کیا گیا۔ جب ہم قرآن کی بات کرتے ہیں جس کو جبرائیل امین نے قلب محمد پر اتارا تو یہ وہی وجدانی آواز ہے جس کو رسول اکرم نے سنا ہے ، یہ وہ روح ہے جو میرے ساتھ ، ہر انسان کے ساتھ موجود ہے ، یہی اصل ہے۔
وہ آواز جو چودہ سو سال پہلے سنی گئی وہ رسول اکرم کے جانے کے بعد وہیں منجمد ہوگئی۔ میرے اور آپ کے ساتھ جو آواز ہے وہ “حی” ہے اور ہر مومن کے ساتھ موجود ہے۔ اس کو الہام کرتی ہے۔ (اور بات ہے کہ وہ اس کو سن کر عمل کرتا ہے یا نہیں)
(ایک ڈکیت جو جان داؤ پر لگا کر ڈاکہ ڈالتا ہے، وہ کبھی پسند نہیں کرے گا کہ اس کے گھر پر ڈاکہ پڑ جائے)
یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن نے سورہ شمس میں کہا ہے۔
وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾
۷۔ اور نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا،
فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾
پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی،
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾
بتحقیق جس نے اسے پاک رکھا کامیاب ہوا،
وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾
اور جس نے اسے آلودہ کیا نامراد ہوا،
(آٹھویں آیت پر غور کیجئے۔ اچھائی برائی الہام کی گئی،
ہر انسان جانتا ہے کہ اچھا کیا ہے، برا کیا ہے)
یہ خدا ہے جو ہمہ وقت انسان سے محو گفتگو ہے۔ اس کو برابر الہام کررہا ہے۔ چودہ سو سال پہلے اسی خدا نے رسول اکرم سے گفتگو کی تھی۔ وہ آج بھی انسان کے نفسوں میں اس سے گفتگو کررہا ہے۔
( اس بات سے حضرت علی کا جملہ یاد آیا، ہر دور میں اس طرح کے لوگ رہے ہیں جن کے نفسوں میں خدا نے ان سے گفتگو کی ہے)
یہ آواز ایسی ہے کہ اگر بچھڑے کے منہ سے نکلتی ہے تو لوگ اس کو موسی اور ہارون کا خدا مان لیتے ہیں۔
سورہ اعراف میں اس طرف اشارہ کیا گیا کہ۔
وَ اتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰی مِنۡۢ بَعۡدِہٖ مِنۡ حُلِیِّہِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ ؕ اَلَمۡ یَرَوۡا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُہُمۡ وَ لَا یَہۡدِیۡہِمۡ سَبِیۡلًا ۘ اِتَّخَذُوۡہُ وَ کَانُوۡا ظٰلِمِیۡنَ﴿۱۴۸﴾
اور موسیٰ کے (کوہ طور پر جانے کے) بعد ان کی قوم نے اپنے زیورات سے ایک بچھڑا بنا لیا (یعنی) ایسا جسم جس میں بیل کی آواز تھی، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ نہ تو ان سے بات کر سکتا ہے اور نہ ان کی رہنمائی کر سکتا ہے، ایسے کو انہوں نے معبود بنا لیا اور وہ زیادتی کے مرتکب تھے۔
ایک اور جگہ قرآن کریم اس طرف حضرت ابراہیم کے واقعے کی توجہ دلاتے ہوئے اشارہ کرتا ہے ، جب انہوں نے بتوں کو توڑ دیا اور بڑے بت کو باقی رہنے دیا اور لوگوں نے جب یہ حال بتوں کا دیکھا تو ان سے پوچھا۔
قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۲﴾
کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟
قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ﴿۶۳﴾
ابراہیم نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔
فَرَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ فَقَالُوۡۤا اِنَّکُمۡ اَنۡتُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿ۙ۶۴﴾
(یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو۔
(اس آیت پر غور کیجئے، وہ لوگ اپنے ضمیر ، اپنے وجدان کی طرف پلٹے تو دل میں خود کو ہی ظالم قرار دیا)
ثُمَّ نُکِسُوۡا عَلٰی رُءُوۡسِہِمۡ ۚ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا ہٰۤؤُلَآءِ یَنۡطِقُوۡنَ﴿۶۵﴾
پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم سے کہا) : تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے ۔
(یہ بولنا ، یہ گفتگو کرنا ہر انسان کے نفس میں خدا کی گفتگو ہے، جس کی طرف ایک اور جگہ قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔
وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾
قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس (زندہ ضمیر) کی)
قبانجی صاحب یہاں سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا خدا منجمد ہوگیا، اب وہ نہیں بولتا، بس وہ چودہ سو سال پہلے بولا تھا؟
پھر وہ ابن عربی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قانون سازی ختم ہوگئی، مگر الہامی گفتگو کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
یہ خدا کی گفتگو ہے جس کی وجہ سے امام علی کہتے ہیں کہ میں بولنے والا قرآن ہوں ۔ ان کے دل میں قران کا نور ہے اس وجہ سے وہ یہ کہتے تھے۔ صرف حضرت علی ایسے نہیں ہیں جو یہ بات کرتے تھے، جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں۔ بلکہ ہر مومن جس کے دل میں قرآن کا نور ہوگا، وہ قرآن ناطق ہوگا۔
آج انسان کو چاہیے کہ وہ دین کو زندہ کرنے کی فکر نہ کرے، بلکہ ضمیر کو زندہ کرے، اپنے وجدان کی طرف پلٹے جہاں خدا موجود ہے۔
(جاری)
ابو جون رضا