مختلف فقہی مسائل ۔ آیت اللہ سیستانی دام ظلہ الوارف کے فتاویٰ کی روشنی میں

-. پانی ، 384 لیڑ ہو تو کر یا کثیر پانی مانا جائے گا.

-. استنجاء کا پانی اگر کپڑوں پر یا بدن پر لگ جائے تو اسے نجس نہیں کرتا، الا کہ اس کی رنگت متغیر ہوگئی ہو۔

-. استنجاء کرتے وقت کرتے وقت قلیل پانی اگرچہ لوٹے میں ہو، اس سے ایک مرتبہ دھونا کافی ہے، دو مرتبہ دھونا احتیاط مستحب ہے۔

-. ایسے تمام حیوانات جن کا گوشت حلال ہے، ان کا جھوٹا پاک ہے۔

-. بلی کا جھوٹا مکروہ نہیں ہے۔

-. عید نوروز یا پندرہ شعبان کا غسل رجائے مطلوبیت کے عنوان سے انجام دیا جائے، ان کو مستحب قرار دیکر انجام نہیں دیا جاسکتا۔

-. وضو کرتے وقت یہ احتیاط رکھی جائے کہ آنکھوں کے گوشے یا اطراف میں کوئی میل کچیل ایسا نہ رہ گیا ہو جیسے سرمہ وغیرہ، جو پانی پہنچنے میں رکاوٹ کا باعث ہو ، اسی طرح سے بھنوؤں پر بھی کوئی گندگی نہ ہو۔

-. وضو میں پانی کے جلد تک پہنچنے کا یقین کافی ہے۔

-. خواتین اگر کوئی زیور وغیرہ پہنے ہوئے ہوں تو اس کا اندرونی حصہ دھونا واجب نہیں ہے، ظاہری حصہ دھونا کافی ہے۔

-. وضو کرتے وقت اگر ناخنوں میں ایسی گندگی موجود ہے جو جلد تک پہنچنے میں مانع ہے تو اس کا دور کرنا ضروری ہے۔

-. وضو کرتے وقت اگر دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے پہلے دھو لے تو پہلے دایاں ہاتھ دھویا جائے گا اور پھر بایاں ہاتھ دوبارہ دھویا جائے گا۔

-. دائیں ہاتھ سے مسح کرنا واجب نہیں ہے۔ بائیں ہاتھ سے بھی کہا جاسکتا ہے، چوڑائی میں بھی کیا جاسکتا ہے۔

-. غسل کے فورا بعد وضو اس صورت میں کرسکتے ہیں اگر رطوبت سرایت کرنے والی نہ ہو یعنی صرف گیلا پن ہو۔

ـ. وضو کرتے وقت نیت کرنا کہ واجب یا مستحب وضو کرتا ہوں یا کرتی ہوں، شرط نہیں ہے۔ صرف وضو کو قربت الی اللہ کی نیت سے کرنا کافی ہے۔

ـ. اگر وضو کرتے ہوئے اچانک نل سے پانی آنا بند ہوجائے، انسان فورا پانی کا انتظام کرے تو وضو وہیں سے شروع کرسکتا ہے جہاں سے چھوڑا تھا الا یہ کہ وضو کا پانی خشک نہ ہوا ہو۔ مثلا چہرہ دھو لیا تھا اور ابھی چہرہ تر ہے تو پھر دونوں ہاتھ ترتیب سے دھوئے، سر اور پیر کا مسح کرے، وضو ٹھیک ہے۔

-. دونوں پیروں کا اکھٹا مسح بھی کیا جاسکتا ہے۔

-. کسی شخص نے صبح وضو کیا اور ظہر میں خیال آیا کہ مبطلات وضو میں سے کوئی چیز سرزد ہوئی ہے یا نہیں تو ایسے شخص کا وضو ٹھیک ہے۔

ـ. ایک شخص نیند سے بیدار ہوتا ہے اور ظہر کے وقت خیال آتا ہے کہ صبح اٹھ کر وضو کیا تھا یا نہیں تو ایسے شخص کو نماز پڑھنے کے لیے وضو کرنا ہوگا۔

ـ. اگر نماز کے دوران شک ہوتا ہے کہ وضو کیا تھا یا نہیں تو نماز قطع کی جائے گی اور وضو کرکے دوبارہ ادا کی جائے گی۔

ـ. نماز پڑھنے کے بعد اگر کسی شخص کو شک ہوتا ہے کہ وضو کیا تھا یا نہیں تو ایسے شخص کی اداکردہ نماز درست ہے، لیکن دوسری نمازوں کے لیے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا۔

-. اگر کسی شخص کو چار رکعت نماز کی تیسری یا چوتھی میں شک ہوتا ہے کہ یہ تیسری رکعت ہے یا چوتھی تو وہ پہلے تعین کرنے کی کوشش کرے گا، اگر نہ ہو تو چوتھی رکعت مان کر نماز کا اختتام کرے گا اور فورا بعد ایک رکعت نماز احتیاط بجا لائے گا۔

-. اعضائے مسح پر اگر پھوڑا یا زخم ہے اور زخم کھلا ہوا ہے تو اس صورت میں تیمم کیا جائے گا۔

-. اگر درد یا ورم کی وجہ سے کوئی کریم اعضائے وضو پر لگا رکھی ہے تو اس کو ہٹانا اگر ممکن ہے تو اس کو ہٹایا جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو اردگرد کے حصے کو دھویا جائے گا اور کریم والی جگہ پر مسح کیا جائے گا۔

-. اگر اعضائے تیمم پر پینٹ لگ جائے یا ایلفی لگ جائے اور کوشش کے باوجود فورا برطرف نہ ہو تو نماز کے لیے وضو اور تیمم دونوں انجام دیے جائیں گے۔ یہی حکم کینولا اگر لگا ہوا تو بھی صادر ہوگا۔

-. اگر رخسار پر ایسی کوئی چیز لگ جائے جس کا ہٹانا ممکن نہ ہو تو پھر نماز کے لیے تیمم کیا جائے گا۔

-. وہ موارد جہاں مکلف کو یہ تعین کرنا مشکل ہو کہ اس کا وظیفہ وضو کرنا ہے یا تیمم کرنا تو پھر وضو اور تیمم دونوں کرنا ضروری ہیں۔

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *