
مجھے قلیل سے مطالعہ اور مشاہدہ سے صرف ایک بات سمجھ میں آئی ہے۔
ملحدین کے پاس سب کچھ ہوگا ، مگر ایک چیز نہیں ہوگی
وہ ہے “امید”
یہ کبھی آپ کو امید نہیں دلائیں گے۔ یہ ہمیشہ سب کچھ چھوڑ کر “آج میں جیو” پر زور دیتے نظر آئیں گے۔
کتاب چھوڑ دو، مذہب چھوڑ دو، کمیونٹی چھوڑ دو، حد ہے کہ “امید” بھی چھوڑ دو۔
ان کی روش پر غور کیجئے، میں کچھ مثالوں سے عرض کرتا ہوں۔
یہ مسلمانوں سے بات کریں گے تو کہیں گے کہ ہزاروں سال پہلے کے توریت کے نسخے اور آج کی توریت بالکل ایک جیسی ہے ، یہ اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کے لیے لڑنے کھڑے ہو جائیں گے، لیکن قران کریم کو انسانی کاوش بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کا رائج قرآن وہ نہیں ہے جو رسول اکرم کے زمانے میں تھا۔
یہ جس مغرب کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، اس کا حال یہ یے کہ 2003 کی فلم “جونی انگلش” میں آرک بشپ کے ہپس پر نعوذباللہ
“Jesus is Coming, Look Busy”
لکھا ہوا دکھاتے ہیں اور ان کی عوام ہنستی ہے۔ یہ اس کو آزادی رائے کہتے ہیں ۔
آسکر ایوارڈ 2022 کی تقریب میں ول اسمتھ ، کامیڈین کرس راک کے اپنی بیوی کا مذاق اڑانے پر اس قدر برہم ہوئے کہ اسٹیج پر جاکر اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ اس پر ان کی دس سال کے لیے آسکر کی تقریب میں شرکت ممنوع قرار دی گئی مگر ول کا کہنا تھا کہ میری بیوی جو کینسر کی مریضہ تھی اور کیمو کی وجہ سے اس کے سر کے بال اڑ گئے، کامیڈین اس کا نام لیکر پبلک میں مذاق اڑا رہا تھا جس پر میں مشتعل ہوگیا۔
یہ انسانی جذبات ہیں جو بھڑک جاتے ہیں، مجروح ہوتے ہیں۔
قرآن کریم نے اس عمل کو واشگاف الفاظ میں منع کیا کہ کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے، شاید وہ اس سے بہتر ہوں۔
ملحدین، متشککین کسی بھی شخص، کسی بھی قوم کا مذاق اڑائیں گے اور توقع رکھیں گے کہ سامنے والا بھی ان کے ساتھ ہنسے۔ اگر وہ ری ایکٹ کرے گا تو کہیں گے کہ مذہبی متشدد ہے۔
یہ کہتے ہیں کہ مذہبی سب سے زیادہ پورن دیکھتے ہیں، لیکن یہ اخلاق باختہ انڈسٹری کہاں قائم ہے، اس کو کبھی کچھ نہیں کہیں گے ،جس میں فلم میں ہی سہی مگر باپ، بیٹی، مالی، چوکیدار، گارڈ ، بیوی بہن اور ماں سب حجابات اٹھتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔ یہ خود کبھی پسند نہیں کریں گے کہ ایسی اخلاق باختہ فلمز اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں مگر دوسروں کو کہیں گے کہ یہ تنگ نظر ہے۔
مغرب میں شراب پی کر گاڑی چلانا ممنوع ہے۔ اگر یہ ایسی فائدہ مند چیز یے تو اس کو پی کر روڈ پر گاڑی لیکر نکلنا کیوں منع ہے؟ لیکن یہ شراب پی کر دوسروں کو گالیاں دیں گے اور کہیں گے کہ مذہبی بداخلاق ہوتے ہیں۔
ہم بھی کچھ منہ سے جو کہہ بیٹھیں تو پھر کتنی رہے
دیکھیے اچھی نہیں یہ بد زبانی آپ کی
جون ایلیا جیسا عبقری شراب پی پی کر ایسا ادھ مرا ہوا کہ اپنے گھر میں نشے میں دھت پڑا رہتا تھا، خاندان والوں نے اس کو چھوڑ دیا، سگے بھائی ، بھتیجی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے ۔ ان کی بھتیجی نے جو گھر کی باتیں کھولی ہیں وہ آپ “چچا جون” نامی مختصر کتاب میں مطالعہ کر سکتے ہیں۔ پڑھ کر جھرجھری آجاتی ہے۔
عربوں کی سبع معلقات آج بھی محفوظ ہے۔ اس کو زمانے سے پڑھایا جاتا ہے۔ اس کی شرحیں لکھی گئیں مگر یہ ڈاکٹر طهٰ حسین کی تحقیق کو لیکر کودتے پھریں گے کہ یہ شاعری رسول اکرم کے زمانے میں نہیں تھی بلکہ بعد میں وضع کی گئی۔ ڈاکٹر طهٰ حسین کا رد لکھا گیا، اس کا کبھی تذکرہ نہیں کریں گے۔
ایک بدو قوم عرب سے اٹھی جس کو تمیز نام کی نہیں تھی، وہ آدھی دنیا پر چھا گئی۔ اس کے پاس ایک انسان کے افکار تھے۔ ایک کتاب تھی جو اس قوم کو بلندی پر لے گئی۔
اس پر یہ مذہب بیزار کہتے ہیں کہ لونڈیوں کے چکر میں مسلمان حملے کرتے تھے اور پیسہ لوٹتے تھے۔
جو قومیں بادشاہت کے آگے سرنگوں تھیں ان کو آزادی ملی، یہ کبھی اعتراف نہیں کریں گے۔
آپ غور کیجئے،
یہ لوگ رسول اکرم کی زندگی کو کس قدر داغ دار کرسکے؟
رسول اکرم کی کوئی لونڈی نہیں تھی، کوئی غلام نہیں تھا۔ کوئی مال و دولت اور اثاثہ جات چھوڑ کر نہیں گئے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ان کی بیویوں کی تعداد پر اعتراض کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی بتائے کہ اخلاق ، کردار ، سچ بولنا، وعدہ نبھانا، امانتوں کا خیال رکھنا ، زبان کی حرمت، بچوں سے پیار، ایثار اور سب سے بڑھ کر ایک تہذیب کی بنیاد رسول اکرم نے ڈالی، جو کوئی فلسفی کبھی نہیں کرسکا۔
اس کا اعتراف یہ پھوٹے منہ نہیں کریں گے۔
میں خود مذہبی متشدد لوگوں سے تنگ رہتا ہوں، میں خود چاہتا ہوں کہ لوگ عقل کا استعمال کریں، قانون کی پاسداری کریں، حرمتوں کا خیال رکھیں، علم حاصل کریں اور ان کی زبان کے بجائے ان کے جسمانی آثار سے پتا چلے کہ وہ باتقوی اور مہذب لوگ ہیں ، لیکن یہ بات میں کبھی بھی زبان کا وقار پست کرکے نہیں کہوں گا۔
لازمی تھا کچھ سوالوں کا جواب
چلئے پھر یہ بد زبانی ہے تو ہے
ابو جون رضا