
راشد شاز صاحب کی کتاب کا ایک اقتباس میں نے شئیر کیا تھا۔ اس میں انہوں نے اپنا ایک خواب بتایا جس میں اکابر علماء سے ان کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے تمثیلا بتایا کہ کس طرح سے مکتبہ دیوبند کفر کے فتوی نشر کرتا رہا ہے۔ ان کے نزدیک جو ان کے مسلک سے تعلق رکھتا ہے بس وہی مسلمان ہے۔
کچھ دن پہلے میں نے ایک مسلک کے مولوی سے پوچھا تھا کہ اگر وفاق الدارس کا ایگزام دینے کوئی اسٹوڈنٹ جائے اور اس کی داڑھی بھی ہو ، مگر مقدار کم ہو تو کیا اس کو ایگزام دینے سے منع کردیں گے؟
انہوں نے بتایا کہ یہ درست ہے۔ ایک اسٹوڈنٹ کو ایگزام سے اٹھا دیا گیا تھا۔ وہ عدالت پہنچ گیا۔ اب پتا نہیں اس کی کب سنوائی ہوگی۔
میں نے پوچھا کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ اپ تو تعلیم ہی دین کی دے رہے ہیں ، آپ کیوں زبردستی کررہے ہیں؟
کہنے لگے کہ یہ ڈریس کوڈ کی طرح ہے۔ اگر آپ عدالت کا ڈریس کوڈ اختیار نہ کریں تو کیا وکیل بن کر دلائل دے سکیں گے؟
میں نے عرض کیا کہ عدالت تو دور کی بات ہے، آپ اسکول میں وہی ڈریس کوڈ استعمال کرتے ہیں جو اسکول کا متعین کیا ہوا ہوتا ہے۔
لیکن یہاں معاملہ دین کا ہے۔ اس طرح تو آپ اپنی مسجد میں بغیر داڑھی والے کو نماز پڑھنے سے روک دیں گے؟
آپ ایران جائیے یا کسی سیکولر ملک چلے جائیں۔ وہ وہاں پر پابندی لگائیں کہ آپ داڑھی نہیں رکھیں گے۔ بلکہ ان کا رہن سہن اختیار کریں گے تو کیا یہ درست ہوگا؟ یا پھر کہیں کہ ہمارے یہاں اتنی لمبی داڑھی نہیں رکھی جاتی ۔ آپ چھوٹی کریں تو کیا یہ پابندی ٹھیک ہوگی؟
اہل تشیع میں داڑھی واجب نہیں ہے۔ سنت ہے۔ آپ تو داڑھی والے کو کہہ رہے ہیں کہ تمہاری داڑھی کی مقدار درست نہیں ہے، تم ایگزام میں نہیں بیٹھ سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیعہ، بریلوی یا غیر مقلد آپ کے علماء سے دین کی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا ؟
رسول اکرم کو خدا نے کہا کہ تم داروغہ نہیں ہو۔ تمہارا کام پہنچا دینا ہے۔ ہدایت دینا ہمارا کام ہے۔
کیا آپ بائی فورس خدا کے قوانین جاری کریں گے، بھلے سے ان کا انسان کے دل میں گزر نہ ہو؟
میں نے ان کو بتایا کہ میرے ساتھ ایک دفعہ یہ ہوچکا ہے۔ میں ایک مدرسہ چلا گیا تھا۔ ان کو پتا چلا کہ میں مختلف خیالات کا مالک ہوں، مگر تعلیم پوری ایمانداری سے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کو ہمارے اکابر کی پیروی کرنی ہوگی۔ آپ کو نذر نیاز ، درود سلام، قبور سے شفاعت سب کو ماننا ہوگا۔ آپ یہ سب نہیں مانتے تو آپ کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔
مولوی صاحب خاموش ہوگئے۔
اب میں آپ کو شیعہ مدرسے کا حال بتاتا ہوں۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ مومن کی غیبت جائز نہیں ہے ۔ اب مومن کون ہے؟ مومن وہی ہے جو بارہ ائمہ پر ایمان رکھتا ہے۔ زکوٰۃ صرف مومن کو دی جائے گی۔
ایک سوال ہوا کہ کیا برتن میں سے پانی پی لینے سے وہ جھوٹا ہوجاتا ہے؟ مولانا نے اس کا تفصیلی جواب دیا۔
سب سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ پانی کس نے پیا ہے؟
اگر وہ غیر مسلم نے پیا ہے تو وہ جھوٹا ہونے کے ساتھ ساتھ نجس بھی ہوجائے گا۔
اگر وہ کسی غیر شیعہ نے پیا ہے، تو وہ جھوٹا ہوجائے گا مگر نجس نہیں ہوگا۔
اگر وہ کسی مومن نے پیا ہے تو وہ جھوٹا تو ہوگا مگر مومن کا جھوٹا پی لینے سے ستر بیماریاں دور ہوجاتی ہیں، ہمارے پاس اس زمن میں روایات موجود ہیں۔
اب سوال ہوا کہ اگر مومن متعدی مرض میں مبتلا ہو تو کیا پھر بھی اس کا جھوٹا پی سکتے ہیں ؟
یہاں مجبور ہوکر فرمایا گیا کہ اس صورت میں روایات کو ایک طرف رکھ کر ایسا جھوٹا کھانے پینے سے اجتناب کیا جائے گا.
ایک اور مثال احناف کی ملاحظہ کیجئے۔
مالی معاملات میں ایک صورت سلم کہلاتی ہے۔ اس پر مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ اگر کسی نے لاعلمی میں دوسرے قول کے مطابق عمل کرلیا ہو تو اس معاملے کو خلاف شرع یا فاسد نہیں کہا جائے گا بلکہ اسے درست قرار دیکر آئندہ کے لیے امام صاحب کے قول پر عمل کرنے کی تلقین کی جائے گی۔
یعنی حنفی مقلد عقل سے کام نہ لے، بس امام صاحب کی رائے پر عمل کرے، سیدھی لکیر پر چلتا رہے۔

کمال تعجب ہے کہ کیا رسول اکرم معاذاللہ اس طرح دین چھوڑ کر گئے تھے؟
کیا قرآن جو فرقوں میں بٹنے سے منع کرتا ہے ، وہ بس ایویں کوئی بات تھی؟
اللہ ان کو ہدایت اور عقل و شعور دے، یہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں۔
ابو جون رضا
Superb artical