
قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا ہے۔ کوشش ہے کہ نیوٹرل ہوکر اس کتاب کو پڑھا جائے۔
قران مجید کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہوا ہے۔ اللہ کے نام سے ابتداء کرتے ہوئے اس کو الرحمن الرحیم کہا گیا ہے۔
دوسرے مذاہب میں بھی خدا کے نام سے ابتداء کرتے ہوئے اس کی تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔ یہودی بارخ عطا ادونی سے آغاز کرتے ہیں۔ جس کا لفظی ترجمہ الحمدللہ ہی بنے گا۔
یجر وید میں بھی ایشور کے نام سے ابتداء کرنے کا حکم ہے۔
ہری اوم تت ست
سب تعریفیں تیرے لیے اے خدائے ذوالجلال والاکرام
ایسا لگتا ہے کہ ابتداء میں پیغمبر کو دعا سکھائی گئی ہے جس میں وہ پہلے خدا کی حمد کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی مدد ہمیں درکار ہے۔ خدا کو یوم جزاء کا مالک قرار دیا گیا ہے۔ شاید اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں خدا کی حاکمیت محدود نظر آتی ہے، یہاں بادشاہ نواب امراء جاگیر دار وغیرہ بھی مالک کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کو اختیار دیکر خدا نے خود کو آخرت کی مالکیت سے منسلک کیا ہے۔
پھر پیغمبر دعا کرتے ہیں کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے نعمتیں تمام کیں۔ یہاں پچھلی قوموں کی طرف اشارہ کیا جانا معلوم ہوتا ہے۔ نبی پچھلے کچھ ایسے لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا کر رہے ہیں جن پر نعمتیں نازل ہوئیں کیونکہ وہ خدا کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلے۔
کچھ لوگ ایسے ہونگے جو سیدھے راستے پر نہیں چلے اور ان پر خدا کا غضب نازل ہوا۔ اس راستے پر چلنے سے پناہ طلب کی گئی ہے۔
یہ مختصر کچھ باتیں ہیں جو صرف اس سورہ کے مطالعے سے سمجھ آتی ہیں۔
ابو جون رضا