انبیاء اور جدید ذہن کے اشکالات (5 – آخری حصہ)

قرون وسطی میں یورپ نے ایک ہزار سال انتہائی خوفناک جمود اور بے حسی میں گزارے، اس کے بعد انسانی فکر میں انقلاب آیا اور آج کی دنیا کے تہذیب و تمدن نے جنم لیا۔

مغرب میں سوالوں اور اشیاء کو دیکھنے کا انداز بدلا تو معاشرہ بھی بدل گیا۔

ہم یونانی تہذیب کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں دسیوں ذہین انسان ایک جگہ جمع ہوئے جن کی فکر اتنی بلند تھی کہ پوری دنیا آج تک ان کے زیر اثر ہے مگر پورا ایتھنز “پہیہ” ایجاد کرنے سے قاصر تھا۔ جبکہ جدید یورپ میں ایک ٹیکنیشن جو ارسطو کی تحریروں کو نہیں سمجھ سکتا، ممکن ہے کہ کوئی بڑی ایجاد کرڈالے۔

اس کی بہترین مثال ایڈیسن نے پیش کی ہے، جس کی عمومی فکر ارسطو کے شاگردوں سے بھی کمتر تھی مگر فطرت کی دریافت اور صنعت کی تخلیق کی وجہ سے اس نے ان تمام ذہانتوں سے زیادہ حصہ ڈالا جنہوں نے ارسطو کے اسکول میں تربیت حاصل کی تھی۔ اس نے چھوٹی بڑی ایک ہزار سے زیادہ ایجادات کیں۔

مسلمانوں میں ابتدائی دور فتوحات کا اور جنگوں کا دور تھا۔ یہ آدھی دنیا سے زیادہ حصہ پر قابض رہے۔ ان کی ابتدائی سوچ اور فکر فاتحانہ ذہن کے ساتھ پروان چڑھی۔

جب ان پر زوال آیا تو یہ اس بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے کہ خدا کی نعمتیں غیر اقوام پر بھی نازل ہوسکتی ہیں۔

ان کے خیال میں زوال کی وجہ نمازوں سے غفلت برتنا، داڑھی کا چھوٹا ہونا، رسومات کی پابندی نہ کرنا وغیرہ تھی۔

یہ جتنا ان ظاہری رسومات کو اپنے معاشرے پر لاگو کرتے گئے، اتنا ہی ان کی بربادی بڑھتی گئی۔ صوفیاء نے معاشرے میں غبی پن پھیلانے میں زبردست حصہ ڈالا۔ یہ لوگوں کو مسلمان کرتے تھے مگر وہ مسلمان کسی کام کے نہیں ہوتے تھے۔ ان کا کام صرف باطن میں جھانکنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

مثال کے طور پر صوفیاء کی مقبول شخصیت منصور بن حلاج ہیں۔ یہ ان کے بقول خدا کی پرجوش محبت میں جلتا ہوا انسان تھا۔ یہ بغداد کی گلیوں میں اپنا سر پکڑے کہتا پھرتا تھا کہ اس سر کو پھاڑ دو، کیونکہ اس نے میرے خلاف بغاوت کی ہے، مجھے اس آگ سے نجات دلاؤ جو میرے اندر جل رہی ہے، میں کچھ نہیں ، میں خدا ہوں۔

اس سے مراد اس کی یہ تھی کہ میں اب موجود نہیں ہوں، صرف خدا موجود ہے۔۔

سوچیے کہ اگر اس وقت کا ایرانی معاشرہ پچیس ملین افراد پر مشتمل ہو اور سب حلاج کی طرح سر پکڑے دیوانہ وار ادھر اُدھر دوڑتے پھرتے تو یہ معاشرہ دیوانوں کے معاشرے کے علاؤہ اور کیا کہلاتا؟

کیا یہ اصل اسلام ہے ؟ کیا یہ انبیاء کی تعلیمات ہیں ؟ کیا یہ وہ انسان ہے جس کو عزت کے ساتھ خدا نے اپنا نائب کہہ کر فرشتوں سے تعارف کروایا تھا۔ کیا اس کی عزت کچھ ظاہری رسومات کی بجاآوری سے ممکن ہوسکے گی؟

آج یہ حال ہے کہ مدارس میں داڑھی کی مقدار کم ہونے پر طالب علم کو امتحان سے اٹھا دیا جاتا ہے، بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، عورتوں کو گھروں میں بند کیا جاتا ہے جیسے اگر عورت باہر نکلی تو لازم ہے کہ وہ نامحرم سے چکر چلا لے گی۔

ان باتوں نے نوجوان نسل کو مذہب بیزار بنادیا ہے۔ مغرب کی مادی ترقی ان کی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے محنت اور علم پر زور نہیں دیا جاتا بلکہ غیر مسلموں کا ٹھکانہ جہنم اور مسلمانوں کا اخروی مقام جنت معلی ہوگا ، یہ بتا کر طفل تسلیاں دی جاتی ہے۔

یہ علماء اور فقہاء نہیں جانتے کہ بقول میٹس، آدمی کی قوت تصور قدیم تاریخ کی زنجیریں توڑ دیتی ہے اور جدید جمالیات کا راستہ کھولتی ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جب روح خود سے بغاوت کر دیتی ہے، خود اپنی ہی نجات دہندہ بن جاتی ہے، ایک ایسی سرگرمی بن جاتی ہے جس میں آئینہ چراغ میں ڈھل جاتا ہے۔

ختم شد

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *