
اسلام میں شخصیت بذات خود کوئی تخلیقی عنصر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انبیاء کو وہ افراد نہیں سمجھا جاتا جنہوں نے معاشرے میں نئے اصول بنائے ہیں سماجیات کے نقطہ نظر کے مقابل، دوسرے مصلحین پر ان کی فوقیت یہ رہی ہے کہ انہوں نے فطرت اور دنیا میں جاری اصولوں کو ان سے بہتر طور پر پہچان لیا اور اسی بنیاد پر وہ معاشرے میں اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے مرد کی حیثیت سے اپنی آزادی کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ بات تاریخ سے ثابت شدہ ہے کہ انبیاء ان مصلحین سے زیادہ کامیاب رہے جو نبی نہیں تھے ۔
مصلحین بعض اوقات اپنی کتب میں بہترین مقالہ جات اور اصول ترتیب دیتے ہیں لیکن وہ کبھی کسی تہذیب کو تخلیق دینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
اس کے برعکس انبیاء نے نئے معاشروں، تہذیبوں اور تاریخوں کی تعمیر کی ہے۔ چودہ سو سال پہلے گزرے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کے کردار کا تاریخی طور کا جائزہ لیجئے۔ یہ بات بالکل عیاں ہوکر سامنے آجائے گی۔
مسئلہ کہاں پر آتا ہے؟
جب ہم انبیاء سے جڑی شخصیات کو بھی انہی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ہم یہ ماننے لگ جاتے ہیں کہ وہ بھی انہی کی طرح “معصوم” یا “محفوظ” تھے۔
ایک مثال سے سمجھیے۔
بخاری میں ایک روایت ہے
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَرَأَيْتَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِذَا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدْ مَاءً، كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لاَ يُصَلِّي حَتَّى يَجِدَ المَاءَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِقَوْلِ عَمَّارٍ حِينَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَانَ يَكْفِيكَ» قَالَ: أَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَدَعْنَا مِنْ قَوْلِ عَمَّارٍ كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الآيَةِ؟ فَمَا دَرَى عَبْدُ اللَّهِ مَا يَقُولُ، فَقَالَ: إِنَّا لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَى أَحَدِهِمُ المَاءُ أَنْ يَدَعَهُ وَيَتَيَمَّمَ فَقُلْتُ لِشَقِيقٍ فَإِنَّمَا كَرِهَ عَبْدُ اللَّهِ لِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»
“حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھا جب حضرت ابوموسیٰ نے حضرت ابن مسعود سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کی کیا رائے ہے، اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: جب تک پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: آپ حضرت عمار ؓ کے اس قول کی کیا تاویل کریں گے جب نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ’’تمہیں (چہرے اور ہاتھوں کا مسح) کافی تھا‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کی اس روایت سے اطمینان نہیں ہوا تھا؟
حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا: حضرت عمار ؓ کی روایت کو جانے دیجیے۔ قرآن مجید میں جو آیت تیمم ہے اس کا کیا جواب ہے؟ اس پر حضرت ابن مسعود ؓ لاجواب ہو گئے، فرمانے لگے: اگر ہم نے لوگوں کو اس کے متعلق رعایت دے دی تو عجب نہیں کہ جب کسی کو پانی ٹھنڈا محسوس ہو گا تو وہ اسے استعمال کرنے کے بجائے تیمم کر لیا کرے گا۔ (راوی حدیث حضرت اعمش کہتے ہیں: ) میں نے (اپنے شیخ ابووائل) شقیق بن سلمہ سے کہا: حضرت ابن مسعود ؓ اسی وجہ سے تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے؟ ابووائل نے جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے”
یہاں دیکھیے کہ آیت میں رخصت ہونے کے باوجود صحابی نے لوگوں کے مزاج کو دیکھتے ہوئے سختی کردی اور تیمم کی اجازت نہیں دی۔
(صحيح البخاري: كِتَابُ التَّيَمُّمِ ، بَابٌ: إِذَا خَافَ الجُنُبُ عَلَى نَفْسِهِ المَرَضَ أَوِ المَوْتَ، أَوْ خَافَ العَطَشَ، تَيَمَّمَ، روایت 345)
دوسری روایت دیکھیے۔
مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:” خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء او بذات الجيش انقطع عقد لي، فاقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، واقام الناس معه وليسوا على ماء، فاتى الناس إلى ابي بكر الصديق، فقالوا: الا ترى ما صنعت عائشة؟ اقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فجاء ابو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع راسه على فخذي قد نام، فقال: حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فقالت عائشة: فعاتبني ابو بكر، وقال ما شاء الله ان يقول، وجعل يطعنني بيده في خاصرتي فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اصبح على غير ماء، فانزل الله آية التيمم فتيمموا، فقال اسيد بن الحضير: ما هي باول بركتكم يا آل ابي بكر؟ قالت: فبعثنا البعير الذي كنت عليه فاصبنا العقد تحته”.
“ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں مالک نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے بتلایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفر (غزوہ بنی المصطلق) میں تھے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا۔ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا ”عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کام کیا؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے۔“ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو روک لیا۔ حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ والد ماجد (رضی اللہ عنہ) مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انہوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا ”اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔“ عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا”
(صحيح البخاري: كِتَابُ التَّيَمُّمِ روایت 334)
ہمارے حدیث کے استاذ بتاتے ہیں کہ اس روایت سے فقہاء نے درج زیل مسائل اخذ کیے ہیں۔
- عورت چاہے شادی ہوکر شوہر کے گھر چلی جائے، اگر باپ زندہ ہے تو اس کی شکایت باپ سے کی جاسکتی ہے۔
- سسر، داماد اور بیٹی کے پاس بغیر اجازت بھی آجاسکتا ہے
- باپ بیٹی کو چاہے شادی شدہ ہو، مار پیٹ اور سرزنش کرسکتا ہے۔
- شوہر کے آرام کا ہر حال میں بیوی کو خیال رکھنا چاہیے۔
یہاں رسول اکرم کے ساتھ جو افراد ہیں ان کو بھی قانون میں شریک مانا جارہا ہے اور ان کے طرز عمل کو اللہ و رسول کے عمل کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔
(جاری)
ابو جون رضا
مسلم معاشرے میں بڑھتے ہوئے الحاد کا سبب دین کی مبادیات سے ناآشنا ہونا، قرآن فہمی کا نہ ہونا، بنیادی سوالات کا جوابات نہ ہونا اور سنا سنایا دین ہے۔