عقائد کا جنجال

اہل تشیع حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انبیاء کے اجداد بھی موحد ہوتے تھے۔ اسی لیے جب وہ قرآن میں دیکھتے ہیں حضرت ابراہیم اپنے والد سے گفتگو کرتے ہیں تو اس میں باپ کے لفظ کے ساتھ بریکٹ لگا کر چچا لکھتے ہیں

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۷۴﴾

۷۴۔اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) آزر سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔

(سورۃ ‎الأنعام‎، آیت 75)

یہ ترجمہ آیت اللہ محسن نجفی کا ہے۔ یہ کلام پر خارج سے عقیدہ ٹھونسنے کی بات ہے۔ جس کی قرآن تائید نہیں کرتا۔

ہوسکتا ہے کہ میں ایسے جوائنٹ فیملی سسٹم میں پیدا ہوا ہوں جہاں میرے والد کو ان کے بھتیجے چچا کہتے ہوں اور میں بھی ان کی دیکھا دیکھی اپنے والد کو چچا کہنے لگا ہوں۔ لیکن یہ بات میں خود بیان کروں گا۔ اگر میرے حوالے سے خدا کوئی بات کررہا ہے تو وہ بھی صاف اور واضح انداز میں یہ بات بیان کرے گا تبھی بات درست مانی جائے گی۔ اگر کوئی باہر والا یہ کہے کہ میں اپنے والد کو تایا ابو کہتا ہوں تو یہ بات جب تک میرے زریعے لوگوں تک نہ پہنچے تب تک وثوق کے درجے پر فائز نہیں ہوگی۔

لوگوں نے قرآن کے ساتھ یہی کھلواڑ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے مسلکی عقیدوں کو بچانے کے لیے قرآن کی آیات کو توڑا مروڑا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کو واضح طور پر حضرت ابراہیم کے والد کو چچا کہنے میں اس آیت میں کیا چیز مانع تھی؟ حضرت ابراہیم کیوں اپنے چچا کو والد کہیں گے؟ یہ بات خارج سے کیسے پتا چلے گی؟

بات گھوم پھر کر انہی عقائد پر آئے گی جو حضرت علی کے والد یا رسول اکرم کے اجداد کے حوالے سے بنائے گئے ہیں۔

میں نے ایک مجلس میں سنا کہ کراچی کے ایک معروف عالم خطاب کرتے ہوئے ہزاروں کے مجمع میں فرما رہے تھے کہ ایک خلیفہ راشد کے باپ پر اگر بات کی جائے گی تو سارے خلفاء راشدین کے والدین پر پر ہم گفتگو کریں گے۔ اس بات پر مجمع جس قدر خوشی سے اچھلا ، وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

ان عالم صاحب کے پیش نظر اسلام کی عظمت اسی میں پوشیدہ تھی کہ دوسرے صحابیوں کے ماں باپ پر کیچڑ اچھالا جائے۔ دوسرے لفظوں میں وہ سنیوں کو وارننگ دے رہے تھے کہ اگر تم نے حضرت علی کے باپ پر کوئی بات کی تو میں سارے جلیل القدر صحابیوں کی معاذاللہ ماں بہن باپ سب ایک کر دوں گا۔

حضرت علی تاریخ کی مظلوم ترین شخصیت ہیں جن کی پیدائش اور وفات منا پر مختلف ایونٹس منا کر اور حکومت وقت سے چھٹی کا مطالبہ کرکے لوگ شانت ہوجاتے ہیں کہ دوسرے جہاں میں بدلے میں جنت کا مطالبہ کردیں گے، بلکہ شاید حضرت علی نے پہلے ہی اپنے ان چاہنے والوں کے نام جنت کے پلاٹ الاٹ کررکھے ہوں۔

حضرت علی کی ولادت کے موقع پر میں مومنین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ لوگ نقابوں کو الٹ کر اصل علی کے چہرے کو پہچانیں جس کی زندگی علم و تقوی سے عبارت تھی۔

ابو جون رضا

3

3 thoughts on “عقائد کا جنجال”

  1. کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق
    کبھی سوز و سرور انجمن عشق
    کبھی سرمایہ محراب و منبر
    کبھی مولا علی خیبر شکن عشق

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *