بنیادی اخلاقیات ، ایک منٹ ٹھریے۔

کچھ باتیں بنیادی اخلاقیات میں داخل ہیں۔مثال کے طور پر کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کرنا۔ والدین کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دروازہ بجانا یا اجازت طلب کرنا۔

یہاں تک کہ قرآن کریم نے ان کو ایڈریس کیا ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَ لَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ بَعۡضُکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿سورہ نور ۵۸﴾

“اے ایمان والو! ضروری ہے کہ تمہارے مملوک اور وہ بچے جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں تم سے اجازت لے کر آیا کریں، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر، اللہ اس طرح تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے”

عرب میں گھر میں داخل ہوتے ہوئے اس طرح کے تکلفات کا رواج نہیں تھا۔ قرآن کریم کے آنے کے بعد یہ طریقہ عرب بھی سیکھ گئے۔ یہاں تک کہ غلام اور کنیزیں بھی کمروں میں داخل ہوتے ہوئے اجازت طلب کرنے لگے۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ اب یہ آیت متروک ہوگئی ہے کیونکہ اب غلاموں اور کنیزوں کا رواج نہیں رہا ، دوسرا انسان اب مکمل طور پر دن میں روزی روٹی کی فکر میں گھر سے باہر ہے۔ لیکن غور کریں تو یہ طریقہ اب آفس میں کسی کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بھی اختیار کیا جانا لگا ہے۔ آپ سینئیر کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے بھی اجازت طلب کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے دور میں یہ اخلاقیات اب مذہبی لوگوں کو سیکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ بغیر پیسہ خرچ کیے تبلیغ کرنے کا اس قدر جنون لوگوں کی رگ رگ میں سرایت کیا ہوا ہے کہ وہ صبح شام لوگوں کو واٹس اپ پر مذہبی پیغامات ارسال کرتے رہتے ہیں۔

کبھی کسی مقدس انسان کی پیدائش پر مبارکباد ، کبھی کسی کے انتقال پر تعزیتی کلمات ، بس سارا سال یہی کچھ چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ غیر مسلموں کے تہوار پر مسلمانوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ ان کو مبارکباد دیں گے تو مذہب سے خارج ہو جائیں گے۔ یہ سب مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے۔

کسی کو مذہبی تلقین بھی کرنے سے پہلے اس سے اجازت طلب کیجئے۔ یہ جانچ لیجیے کہ سامنے والا آپ کی بات سننے کو تیار ہے کہ نہیں ۔ آپ جن کو مقدس ہستیاں مانتے ہیں کیا وہ ان کو اتنا ہی مقدس مانتا ہے؟ کیا جن رسوم و رواج کی پیروی کرنا آپ ضروری سمجھتے ہیں ، وہ بھی ان کو اتنا ہی قابل عمل سمجھتا ہے؟ آپ کی آواز کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، یا کسی مذہبی ترانے پڑھنے والے کسی مشہور شخص کو دنیا کتنا ہی پسند کیوں نہ کرتی ہو، سامنے والا بھی وہی پسندیدگی اس شخص کو دینے کو تیار ہے ؟

پہلے ان معمولی باتوں پر غور کرلیجیے ، پھر کسی کو واٹس اپ پر یا انباکس میں مذہبی پیغامات ارسال کیجئے۔

غور کیجئے،

مذہبی میسجز پر پیسے لگ جائیں تو ساری تبلیغ سوشل میڈیا سے غائب ہو جائے ۔ مفت کی تبلیغ تو ہر کوئی کرلیتا ہے۔

Charity Begin’s at home.

خود انسان اچھائی کو اپنائے، تبدیل ہو، اس کو دیکھ کر اقرباء اور قریبی لوگ تبدیل ہوں، میرا خیال ہے کہ بس اتنا ہی بہت ہے۔

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *