آج کل پبلک اسپیکنگ سوائے مذہبی باتوں کے کچھ نہیں رہ گئی ہے۔
میں اکثر مشاہدہ کرتا ہوں کہ سیلز کی میٹنگ میں اسپیکر خوبصورتی سے مذہب لے آتا ہے۔ اگر آپ کسی شیعہ اسپیکر کو سن رہے ہیں تو وہ “مولائے کائنات” نے یہ فرمایا اور وہ فرمایا جیسے جملے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ اس سے قطع نظر کہ سامعین حضرت علی کو مولائے کائنات کا درجہ دیتے ہیں یا نہیں، اسپیکر اپنا مسلک بیان کرنا ضروری سمجھے گا۔
اہل سنت اسپیکرز زیادہ تر مقدس افراد کے دور حکومت میں کیا ہوتا تھا اس سے متعلقہ قصے سناتے ہیں اور آخر میں قبر ایک گڑھا ہے اور کچھ بھی کرلو ، جانا تو مٹی میں ہی ہے جیسے جملے استعمال کرکے ساری موٹیویشن کی ایسی کی تیسی کردیتے ہیں۔
اہل تشیع کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نہج البلاغہ حضرت علی نے لکھی اور نہ ہی لکھوائی ہے۔ یہ ان کے دنیا سے انتقال کرجانے کے پانچسو سال بعد سید رضی نے مرتب کی ہے۔ انہوں نے اپنے ذوق کے حساب سے اس کتاب کو مرتب کیا۔ حضرت علی سے منسوب ٹیکسٹ کی اسناد کو دیکھا پھر ان کو حذف کرکے ایک کتابی شکل میں ، خطبات، خطوط، کلمات قصار کو مرتب کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اس کتاب کی اسناد پر بھی بحث ہے، اس کے کلام پر بھی بحث ہے کہ آیا یہ حضرت علی سے صادر ہوئے ہیں یا نہیں۔ حضرت علی سے نشر ہونے والے الفاظ اس دور میں گفتگو کا حصہ تھے یا نہیں؟ ان کے کلام پر عجمی رنگ کس حد تک نظر آتا ہے؟ وہ ایک عامل کو خط لکھتے ہیں تو اس کو ہماری طرح کہتے ہیں کہ تمہارے باپ کا مال تھا جو تم نے آگے بھیج دیا؟ ہم تو صرف باپ ہی کہتے ہیں وہ تو ماں کو بھی لے آتے ہیں۔
“کلام میں الفاظ اصل ہیں”
حضرت علی کے کلام کو مسعودی، سید رضی سے سو سال پہلے جمع کرچکا تھا۔ لیکن حضرت علی سے اس کا بھی فاصلہ چار سو سال بعد کا ہے۔ اس کتاب کو صحیح بخاری کی طرح قرآن سے بڑھ کر درجہ حاصل ہے چاہے اہل تشیع اس کا لاکھ انکار کریں۔
ایک بات اہل سنت اور اہل تشیع اسپیکرز میں کامن نظر آتی ہے وہ مرنے کا بیان ہے۔ آپ کچھ بھی کرلیں، جانا تو چار فٹ زمین کے نیچے ہی ہے۔
اہل تشیع کے لیے نہج البلاغہ سے ایک قول نقل کرتا ہوں۔
اَلنَّاسُ اَبْنَآءُ الدُّنْیَا، وَ لَا یُلَامُ الرَّجُلُ عَلٰى حُبِّ اُمِّهٖ.
“لوگ اسی دنیا کی اولاد ہیں، اور کسی شخص کو اپنی ماں کی محبت پر لعنت ملامت نہیں کی جا سکتی”
(نہج البلاغہ حکمت 303)
آپ کبھی سمندر کنارے کھڑے ہوں تو دیکھیں گے کہ ایک موج اٹھتی ہے ، وہ ختم ہوجاتی ہے۔ دوسری موج نمودار ہوتی ہے ، پھر وہ بھی ختم ہوجاتی ہے۔ کیا موج کے ختم ہونے سے سمندر ختم ہوجاتا ہے؟
یہی مثال انسان کی ہے، وہ مرجائے گا مگر انسانیت باقی رہے گی۔ آپ اس انسانیت کے لیے کیا چھوڑ کر جار رہے ہیں یہ اہم ہے نہ کہ بعد از موت کسی جنسی انڈسٹری میں داخل ہوں یہ اہم ہے۔
آپ کیا کام کررہے ہیں اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو کام کررہے ہیں اس کو کتنے سلیقے اور ڈھنگ سے انجام دے رہے ہیں۔
یہ باتیں اگر ہماری عوام سمجھ لے تو امید ہے کہ بہت سوں کا بھلا ہوگا۔
ابو جون رضا