سرسید نے تفسیر قرآن کے کچھ اصول مقرر کیے تھے۔ ان کی خط و کتابت جناب محسن الملک صاحب سے رہی جس میں ایک خط میں انہوں نے ان اصولوں کا تذکرہ کیا جو تفسیر قرآن کے وقت ان کے پیش نظر رہے۔
ان اصولوں میں سے آٹھواں اصول یہ تھا۔
“تمام صفات باری کی نامحدود اور مطلق عن القیود ہیں۔ یفعل مایشاء و یحکم ما یرید۔ پس وہ ان دعووں کو کرنے کا مختار تھا جن کو اس نے کیا ہے اور اس قانون فطرت کے قائم کرنے کا بھی مختار تھا جس پر اس نے کسی کائنات کو بنایا ہو یا اس موجودہ کائنات کو بنایا ہے یا آئندہ کسی اور صورت میں بنادے ، مگر اس “وعدہ اور قانون فطرت” میں جب تک وہ ہے، تخلف محال ہے اور اگر ہو تو ذات باری کی صفات کاملہ میں نقصان لازم آتا ہے اور ان وعدوں کا کرنا اور قانون فطرت پر کائنات قائم کرنا اس کی قدرت کاملہ کا ثبوت ہے اور ان کے ایفا سے جس کا خود اس نے اپنے اختیار سے وعدہ کیا ہے، اس قدرت کے مطابق عن القیود اور نامحدود ہونے کی معارض نہیں ہوسکتا”
تبصرہ :
سرسید کے خیال میں برصغیر میں جدید مغربی علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کی آمد سے درحقیقت وہی صورت حال پیدا ہوگئی تھی جو قرون وسطی میں اسلامی تہذیب اور یونانی فلسفے کے ملاپ کے وقت پیدا ہوگئی تھی ۔ لہذا اہل دانش کا فرض بنتا تھا کہ وہ حکمائے قدیم کی طرح نئے علوم و فنون کی روشنی میں اسلامی الہیات کی تشکیل نو کریں۔
سرسید نے ایک نیا علم کلام تشکیل دینے کی کوشش کی جس میں مسلم الہیات کے مسائل کو انہوں نے علوم جدیدہ کی روشنی میں حل کرنے کی سعی کی۔ ان کا خیال تھا کہ قرآن مجید حقیقت امور کے متعلق ہے ، کیونکہ یہ ورڈ آف گاڈ ہے اور ورک آف گاڈ بالکل اسی کے مطابق ہے۔ خدا کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا ، اسی لیے اسلام اور طبیعات میں بھی کوئی ٹکراؤ نہیں ہوسکتا، جہاں کہیں ایسا ٹکراؤ موجود ہے، اس کی حیثیت محض ظاہری اور غیر حقیقی ہوگی۔ چانچہ “نیچر” جسے خدا نے فطرت کہا، اسلام کا دوسرا نام ہے۔
سرسید اپنے نظریہ کے ثبوت کے لیے تفسیر بالرائے کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ الفاظ کی تحقیق بھی اپنے مخصوص نظریے کے تناظر میں ہی کرتے ہیں۔ اس کے مقابل میں اگر دوسرے مفسرین مثلا مولانا فراہی کا جائزہ لیا جائے تو وہ مفردات کی تحقیق میں کلام عرب سے نظائر پیش کرتے ہیں، لیکن سرسید کے یہاں یہ چیز نہیں ملتی۔
مثال کے طور پر لفظ “من و سلوی” پر روشنی ڈالتے ہوئے سرسید نے کلام عرب سے کوئی مثال نہیں پیش کی، انہوں نے بس یہ بتایا کہ “من” ایک چیز ہے جو بطور ترنجبین کے ایک خاص قسم کی جھاڑیوں پر جم جاتی ہے اور “سلوی” بٹیر کی قسم کا جانور ہے جس اس جنگل میں جہاں بنی اسرائیل گئے تھے، بکثرت پایا جاتا ہے۔
مولانا فراہی کہتے ہیں کہ “من” اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل پر احسان تھا ۔ من کا مفہوم ہی احسان ہے، یہ دونوں کلمے من و سلوی عربوں کے یہاں معروف تھے جیسا کہ اعشی میمون کا شعر ہے۔
لو اطعموا المن و السلوی مکانھم
ما ابصر الناس طعما فیھم نجوی
ایک اور مثال دیکھیے۔ سرسید نے لفظ “آیت” کی اپنے بنائے ہوئے قانون فطرت کے حساب سے تشریح کی ، جس کی وجہ سے تمام معجزات قرانی کا انکار کردیا۔
اس پر اعتراض یہ تھا کہ آیت کا استعمال اصل میں اللہ کی نشانی کی طرف اشارہ ہے۔ معجزہ انسانی قوت و تدبیر سے ماورا ہے اور یہ من جانب اللہ ہے ، اس کا تعلق افعال نبی سے نہیں ہے، یہ دراصل نبوت کی شہادت کے لیے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ معجزہ اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ کرامت کا تعلق عدم اثرات سے ہوتا ہے اور ظہور معجزہ کے بعد یا تو ایمان لانا ہوگا ورنہ عذاب ہوگا۔
قران کریم میں ارشاد ہے
” اگر ہم نے فرشتہ نازل کردیا ہوتا تو فیصلہ بھی ہوچکا ہوتا ، پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی”
سورہ الانعام آیت 8
سرسید نے تفسیر میں اپنے آٹھویں اصول کا اطلاق جا بجا کیا ہے۔ وہ اپنے اس اصول کی تائید میں یہ آیت پیش کرتے ہیں
فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ
سورہ روم آیت 30
“پس یکسو ہو کر اپنا رخ دین کی طرف مرکوز رکھیں، اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں آتی، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے”
اس پر اعتراض یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیت واضح کررہی ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ اپنی فطرت سے بغاوت نہ کریں ۔ اسی تناظر میں اسے “الدین القیم” کہا گیا ہے۔ اگر اس سے سرسید کی طرح قانون فطرت میں تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی ، مراد لی جائے تو دوسری طرف قرآن کریم میں ہی ارشاد ہے
وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِیۡنًا
سورہ النساء آیت 119
“اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں آرزوؤں میں ضرور مبتلا رکھوں گا اور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں ضرور رد و بدل کریں گے اور جس نے اللہ کے سوا شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا پس یقینا وہ صریح نقصان میں رہے گا”
یہاں فطرت اللہ سے مراد فطرت انسانی ہے۔ یہاں انسانوں کو حکم ہے کہ تم اپنی حدود سے تجاوز نہ کرو، یہی فطرت ہی اصلا دین قیم ہے اور سنت اللہ سے مراد وہ مخصوص انداز ہے جو اللہ کے افعال میں موجود ہے۔ یہ عدل و رحمت کا طریقہ ہے اور یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ اپنے بھیجے ہوئے انبیاء اور رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ سنت اللہ سے سرسید کی طرح تمام مخلوقات کی طبائع مراد لینا اور اسے غیر متبدل تسلیم کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے
یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ
سورہ رعد آیت 39
“اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے”
کائناتی نظام میں اللہ تعالیٰ کے دو فیصلے ہوتے ہیں: ایک فیصلہ اٹل، حتمی اور ناقابل تغیر اور دوسرا فیصلہ قابل تغیر ہوتا ہے۔ اگر اللہ کے حتمی فیصلے نہ ہوتے تو اس کائنات کی کسی چیز پر بھروسا نہ ہوتا۔ مثلاً فصل اگنا حتمی نہ ہوتا تو کوئی کاشت نہ کرتا اور اگر فیصلوں میں لچک نہ ہوتی تو انسان مجبور ہوتا اور اپنے کردار و اعمال کا اس پر کوئی اثر مرتب نہ ہوتا۔
حدیث میں آیا ہے:
لا یرد القضاء الا الدعاء و لا یزید فی العمر الا البر
جامع الترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139، بحار الانوار 90: 300
“اللہ کے فیصلے کو صرف دعا روک سکتی ہے اور نیکی ہی سے عمر دراز ہو سکتی ہے”
البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ کا فیصلہ ایسے نہیں بدلتا جیسے ہمارا فیصلہ بدلتا ہے۔ ہمارا فیصلہ تو اس وقت بدلتا ہے جب کوئی نئی بات سامنے آ جاتی ہے جو پہلے معلوم نہ تھی، لیکن اللہ کو تمام فیصلوں کا یکساں علم ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کے پاس ایک قانون کلی ہے جس کے تحت فیصلے بدلتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام سے مشورہ کرنے کے بعد آپ نے جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا،
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا
أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ ﷲِ
’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘
حضرت عمر نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:
أفِرُّ مِنْ قَضَاء ﷲ اِلٰی قَدْرِ ﷲِ
’’میں اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں‘‘
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283
سترہویں صدی کے وسط میں عالم مادی کے لیے “نیچر” کا لفظ ہونے لگا تھا جس کا ترجمہ سرسید نے “فطرت” کے لفظ میں کیا۔ سترہویں صدی سے انیسویں صدی تک مغرب میں یہ تصور رائج رہا کہ عالم مادی یا فطرت بہت سی اشیاء کا مجموعہ ہے اور ان اجزاء کا مجموعہ ایک کل بن جاتا ہے۔ یعنی فطرت ایک مشین ہے اور اشیاء اس کے پرزے ہیں۔ یہ مشین چند مقررہ اصولوں کے مطابق چلتی ہے اور اس مشین کو چلانے کے لیے کسی خدا کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مادہ خود سے اپنے اندر حرکت پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان بتدریج ان قوانین فطرت کو سمجھ لے تو وہ فطرت کو اپنا غلام بنا سکتا ہے۔
یہی تصور تھا جو سرسید کے ذہن پر چھا گیا تھا اور اسی اپنے تئیں دانش مندی کی آخری منزل کے تحت انہوں نے قرآن کریم کی تفسیر کی تھی۔
ابو جون رضا