حضرت موسی جب خوف کے عالم میں مدین کی طرف نکلے ، کچھ وقت بعد جب مدین کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک کنویں کے پاس کچھ چرواہے جمع ہیں جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں۔ دو لڑکیاں اپنے جانور لیے الگ سے انتظار میں کھڑی ہیں.
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُکُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ ٜ وَ اَبُوۡنَا شَیۡخٌ کَبِیۡرٌ﴿۲۳﴾
۲۳۔اور جب وہ مدین کے پانی پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا لوگوں کی ایک جماعت (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہی ہے اور دیکھا ان کے علاوہ دو عورتیں (اپنے جانور) روکے ہوئے کھڑی ہیں، موسیٰ نے کہا: آپ دونوں کا کیا مسئلہ ہے؟ وہ دونوں بولیں: جب تک یہ چرواہے (اپنے جانوروں کو لے کر) واپس نہ پلٹ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتیں اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں.
فَسَقٰی لَہُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤی اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ﴿۲۴﴾
۲۴۔ موسیٰ نے ان دونوں (کے جانوروں) کو پانی پلایا پھر سایے کی طرف ہٹ گئے اور کہا: میرے رب! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں۔
فَجَآءَتۡہُ اِحۡدٰىہُمَا تَمۡشِیۡ عَلَی اسۡتِحۡیَآءٍ ۫ قَالَتۡ اِنَّ اَبِیۡ یَدۡعُوۡکَ لِیَجۡزِیَکَ اَجۡرَ مَا سَقَیۡتَ لَنَا ؕ فَلَمَّا جَآءَہٗ وَ قَصَّ عَلَیۡہِ الۡقَصَصَ ۙ قَالَ لَا تَخَفۡ ٝ۟ نَجَوۡتَ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۲۵﴾
۲۵۔ پھر ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ آپ نے جو ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے آپ کو اس کی اجرت دیں، جب موسیٰ ان کے پاس آئے اور اپنا سارا قصہ انہیں سنایا تو وہ کہنے لگے: خوف نہ کرو، تم اب ظالموں سے بچ چکے ہو۔
قَالَتۡ اِحۡدٰىہُمَا یٰۤاَبَتِ اسۡتَاۡجِرۡہُ ۫ اِنَّ خَیۡرَ مَنِ اسۡتَاۡجَرۡتَ الۡقَوِیُّ الۡاَمِیۡنُ﴿۲۶﴾
۲۶۔ ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا: اے ابا! اسے نوکر رکھ لیجیے کیونکہ جسے آپ نوکر رکھنا چاہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو طاقتور، امانتدار ہو۔
قَالَ اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُنۡکِحَکَ اِحۡدَی ابۡنَتَیَّ ہٰتَیۡنِ عَلٰۤی اَنۡ تَاۡجُرَنِیۡ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ ۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِکَ ۚ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَیۡکَ ؕ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۲۷﴾
۲۷۔ (شعیب نے) کہا:میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح اس شرط پر تمہارے ساتھ کروں کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو اور اگر تم دس (سال) پورے کرو تو یہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے اور میں تمہیں تکلیف میں ڈالنا نہیں چاہتا، ان شاءاللہ تم مجھے صالحین میں پاؤ گے۔
قَالَ ذٰلِکَ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکَ ؕ اَیَّمَا الۡاَجَلَیۡنِ قَضَیۡتُ فَلَا عُدۡوَانَ عَلَیَّ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوۡلُ وَکِیۡلٌ﴿٪۲۸﴾
۲۸۔ موسیٰ نے کہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان وعدہ ہے، میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہے اور جو کچھ ہم کہ رہے ہیں اس پر اللہ کارساز ہے
(سورہ قصص)
ابتدائی آیت میں دیکھیے کہ خواتین کی بات کو قرآن نے بہت مختصر اور جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ پہلے مسئلہ بیان ہوا پھر یہ کہہ دیا گیا کہ ” ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں”
یعنی ابلاغ کردیا گیا کہ گھر میں ایک وہی مرد ہیں جو بڈھے ہیں ، اس عمر کو پہنچ گئے ہیں کہ کام کرنے کی طاقت نہیں رہی۔
پھر قرآن بتاتا ہے کہ حضرت موسی نے ان لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلایا، جس کا مقصد نیکی کا حصول تھا۔
وہ سایہ میں بیٹھے تو بہترین جملے منہ سے ادا کیے جن کو قرآن نے نقل کیا۔
“میرے رب! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں”
یہاں کوئی حاجت بیان نہیں کی۔ جبکہ بے گھر تھے، مسافر تھے مگر صرف اتنا کہا کہ اے میرے رب تو جو بھی خیر نازل فرمائے گا، میں تو طلب گاروں میں سے ہوں ، میں فقیر ہوں، میں محتاج ہوں ۔ کامل بھروسہ ہے کہ اللہ کی رحمت جب بھی نازل ہوگی، خیر کا ہی باعث بنے گی۔
خیر نازل ہوئی اور ایسی ہوئی کہ ایک پاک دامن بیوی ملی، ایک نبی کے زیر سایہ تربیت کا موقع ملا۔ کھانا پینا، رہائش ملی اور فرعون کا خوف جاتا رہا۔
قصص القران میں لکھا یے کہ حضرت شعیب نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ تمیں کیسے پتا چلا کہ یہ شخص امانتدار ہے؟ طاقتور ہونا ، کنویں میں سے پانی نکالنے سے ظاہر ہے مگر امانت دار ہونا کیسے پتا چلا؟ لڑکی نے اپنے والد کو بتایا کہ اس شخص نے میرے آگے آگے گھر تک کا راستہ طے کیا، اس کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ کسی نامحرم لڑکی کو پشت کی جانب سے بھی دیکھے۔
یہ بنیادی اخلاقیات ہیں جو غض بصر کے حکم کے بغیر بھی انسان کی فطرت میں الہام کردی گئی ہیں۔
حضرت شعیب نے خود اپنی بیٹی کا رشتہ پیش کیا۔اس میں کوئی شرع مانع نہیں ہے کہ لڑکی والے اگر کسی لڑکے کو لائق اور قابل سمجھتے ہیں تو اسے پیغام دے دیں۔ جیسا کہ حضرت شعیب (علیه السلام) نے پیغام دیا.
یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
۱۔ کیا فقہی اعتبار سے یہ درست ہے کے وہ لڑکی جس کے ساتھ نکاح کرنا ہے اس کا ما قبل تعین نہ ہو بلکہ عقد کے اجراء کے وقت کہاجائے کہ :
میں ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا تمہارے ساتھ نکاح کرتا ہوں؟
یہ واضح نہیں ہے کہ مذکورہ الفاظ اجرائے صیغہ کے وقت کہے گئے ہوں گے .بلکہ سیاق عبارت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابتد ائی گفتگو ہے ، جیسے اصطلاح میں “مقادلہ“ کہتے ہیں تاکہ حضرت موسٰی کی رضامندی کے بعد طرفین ایک دوسرے کو انتخاب کرلیں، پھر صیغہ عقد جاری ہوجائے۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ مہرکو غیر طے شدہ حالت میں کم اور زیادہ کے درمیان مشکوک حالت میں رکھا جائے؟
آیت کے لب و لہجہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت شعیب نے مہر آٹھ سال کی خدمت طے کی تھی . اسے دس سال تک بڑھا دینا حضرت موسٰی کی مرضی پر منحصر تھا ۔
تیسرا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا اصولا کام اور خدمت کو مہر قرار دیاجاسکتا ہے؟ نیز ایسی عورت سے ہم بستری کیسے ہوسکتی ہے جبکہ ابھی اس کا تمام مہر ادا کرنے کا وقت ہی نہیں آیا حتٰی کہ شوہر کی اتنی بضاعت ہی نہیں ہے کہ کل مہر یکمشت ادا کردے۔
یہاں فقہاء کی آراء مختلف ہیں۔ کچھ اسے شریعت شعیب میں جاری مہر کے عنوان سے قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاید یہ شریعت شعیب کے حساب سے درست ہو مگر ظاہر الروایۃ یہی صورت منقول ہے کہ خدمت زوجہ کو مہر نہیں بنایا جاسکتا۔ بعض کا کہنا یہ ہے کہ ایسے مہر کے عدم جواز پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ ہماری شریعت میں ہر وہ شے جس کی کچھ قیمت ہو اس پر مہر کا اطلاق ہوسکتا ہے . شوہر کے لیے یہ بھی لازم نہیں کہ وہ کل مہر بیک وقت ادا کردے .اتنا ہی کافی ہے کہ حق مہر ادا کرنے کا شوہر ذمہ دار ہو ۔ .شوہر کی درستی صحت اور اس کا اپنی بیوی کی رفاقت میں رہنا بھی اس امر کی دلیل ہوتا ہے کہ امید ہے کہ وہ زندہ رہے گا اوراس میں اتنی قدرت ہوگی کہ وہ حق مہر ادا کر سکے گا ۔ بعض کی رائے ہے کہ خود بیوی کی خدمت کو مہر بنانا تو شوہر کی تکریم کے خلاف ہے مگر بیوی کا کوئی ایسا کام جو گھر سے باہر کیا جاتا ہے، جیسے تجارت کرنا، اگر اس میں شرائط اجارہ کے مطابق مدت معین کردی گئی ہو ، جیسا کہ اس واقعہ میں آٹھ سال کی مدت متعین ہے تو اس کی صورت یہ ہوگی کہ اس مدت ملازمت کی تنخواہ جو بیوی کے ذمے ہوگی ، اس تنخواہ کو مہر قرار دینا جائز ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصولا کس طرح ممکن ہے کہ باپ کی خدمت بیٹی کاحق مہر قرار دیا جا سکے؟ کیا بیٹی بھی کوئی متاع ہے جسے حق خدمت کے عوض فروخت کردیاجائے ؟
اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ حضرت شعیب (علیه السلام) نے اس مسئلہ میں اپنی بیٹی کی رضا مندی حاصل کرلی ہوگی اوروہ اس قسم کے عقد کو جاری کرنے کے لیے وکیل تھے۔ قرآن کریم جزئیات کو نقل نہیں کرتا، اس کو صاحبان عقل کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔
اس مسئلے کی ایک اور توجیہہ بھی ہوسکتی ہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کے ذمّہ جو مہر تھا حقیقت میں اس کی اصل مالک حضرت شعیب (علیه السلام) کی لڑکی ہی تھی مگر چونکہ خاندان مشترکہ تھا اور ان کی زندگی نہایت خلوص اور محبت سے گزرتی تھی ، آپس میں کسی قسم کا اختلاف نہ تھا ( جیساکہ اب بھی قدیمی خاندانوں یا دیہات میں دیکھاجاتا ہے کہ گھر کے تمام افراد مل جل کر رہتے ہیں ) اس لیے وہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا تھا کہ حق مہر کون لے گا؟ خلاصہ یہ ہے کہ مہر کی مالک صرف لڑکی ہی ہے نہ کہ باپ۔ حضرت موسٰی کی خدمت بھی لڑکی ہی کے لیے تھی ۔
ایک اعتراض یہ بھی ہوتا ہے کہ حضرت شعیب کی دختر کا مہر نسبتا بہت زیادہ تھا . اگر آج کے حساب سے ایک مزدور کی مزدوری کا ایک ماہ اور پھر ایک سال میں حساب کریں اور پھر اس کو آٹھ سے ضرب دیں تو یہ خطیر رقم بن جاتی ہے ۔
اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ اوّل تو یہ کہ یہ ازدواج کوئی معمولی رسم نہ تھی بلکہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کا حضرت شعیب (علیه السلام) کے زیر تربیت رہنے کے لیے اسباب اولیہ میں تھی اور یہ ایک ذریعہ تھا جس کی بدولت حضرت موسٰی ، حضرت شعیب کے دار العلم میں رہ کر نصاب تعلیم کو پورا کریں .خدا ہی جانتا ہے کہ اس طویل مدّت میں حضرت موسٰی نے پیر مدین سے کیا کچھ حاصل کیا۔
علاوہ بریں اگر حضرت موسٰی اس مدّت میں حضرت شعیب ہی کے لیے کام کرتے اوراس کے عوض میں حضرت شعیب ، حضرت موسٰی اور ان کی زوجہ کے کفیل رہتے تو انھوں نے حضرت موسٰی اوران کی اہلیہ کے لیے جو کچھ کیا اسے کام کی مزدوری میں سے نفی کریں توکچھ زیادہ رقم باقی نہ رہے گی اور پھر مہر بہت خفیف رہ جائے گا۔
2۔ مرحوم محقق حلّی شرائع الاسلام میں کہتے ہیں :
“آزاد شخص کی منفعت پر عقد صحیح ہے ، مثلا بطور مہر کوئی صنعت سکھا دے یا قرآن کی کوئی سورة پڑھا دے اور ہر حلال عمل کے لیے شوہر کو معینہ مدّت کے لیے اجیر بنایا جاسکتا ہے. مرحوم فقیہ بزرگوار صاحب جواہر اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ علمائے مشہور اس رائے سے متفق ہیں”
(تفسیر نمونہ ، آیت کے ذیل میں)
ابو جون رضا
Great post