ایران کی عراق کے ساتھ آٹھ سال جنگ رہی ہے۔ مگر اس وقت جو جنریشن ہے اس نے جنگ کی تباہ کاری نہیں دیکھی۔ اب پرانے بابے اللہ کے پاس چلے گئے۔ پورے ملک میں نئی پود آگئی اور وہ بھی بڑی ہوگئی۔
اس جنریشن کو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کو خوش کرنے کے لیے اسرائیل کا خاتمہ ضروری ہے۔
لیکن جب جنگ کے شعلے کسی ملک کے شہر میں بھڑکتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ جنگ کیا بلا ہے۔
پولینڈ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد وار سینٹر بنائے گئے جہاں جنگ کی تباہ کاریوں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ وہ تصویریں اتنی بھیانک ہیں کہ آج بھی کمزور دل کا انسان ان کی تاب نہیں لاسکتا۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ آنے والی جنریشن یہ یاد رکھے کہ ان کے بزرگوں نے کس قدر تکلیفیں جھیلی ہیں اور جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے۔
حال یہ ہے اپنا ملک سنبھلتا نہیں ہے اور دوسرے ملک کے لوگوں کو اکسایا جاتا ہے کہ اٹھ کھڑے ہو۔
مجھے کوئی اپنے ایمان سے دل پر ہاتھ رکھ کر بتا دے کہ یہ جو ملا ایران اسرائیل کی باتیں کرتے ہیں، ان کا اپنا کتنا کنٹریبیوشن ہے اس پاکستان کو بہتر بنانے میں؟
یہ ڈونیشن ، زکاۃ ، فطرہ، خمس کے پیسوں پر مدرسے چلاتے ہیں، وہاں رہنے والے ہر طالب علم کو استاذ کے نظریات پر سر خم کرنا پڑتا ہے۔ وہ جو کہے وہ مانو، وہ کہے فلاں کے خلاف کپڑے اتار کر روڈ پر کھڑے ہو جاؤ ، ان کو کھڑا ہونا پڑے گا۔
وہ کہے ریلی نکالو، روڈ بلاک کرو، دکانیں بند کرواؤ ، یہ سب کرنا پڑے گا۔
لیکن کوئی ایک مجلس کوئی ایک محفل ، کوئی ایک مدرسہ ایسا بتائیں جہاں ٹریفک کے قوانین کی پابندی ، ٹیکس پورا بھرنے کی تاکید، بہنوں کا حق دینے پر اصرار ، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال اور اس مملکت پاکستان کی خوشحالی کے لیے لوگوں کو آمادہ کیا جاتا ہو.
کوئی ایک بتائیے۔
میرا چیلنج ہے کہ ایک ایسا مدرسہ نہیں ہوگا جو تاکید کرے کہ ہر وہ محفل، مجلس، ریلی، جلوس ، میلاد حرام ہے جس سے کسی دوسرے شخص کو معمولی تکلیف پہنچتی ہو۔
خدا ان کو ہدایت دے ، یہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں
ابو جون رضا