ایک اسکالر سے پوچھا گیا کہ ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے؟“
انہوں نے فرمایا
”آپ کبھی خالی الذہن ہو کر صرف ایک سوال اپنے سامنے رکھیں۔۔۔صرف ایک بات اپنے سامنے رکھیں۔ اس دنیا میں اس وقت دس نہیں، بیس نہیں کروڑوں کتابیں موجود ہیں۔اور ایک دو نہیں دنیا میں بے شمار اہلِ علم پیدا ہوئے، ہر فن کے ماہرین پیدا ہوئے ہیں۔ میں پوری ذمے داری سے یہ بات کر رہا ہوں۔ میں فلسفے کا، ادبیات کا، تاریخ کا طالبِ علم رہا ہوں۔ میں نے دنیا بھر کا ادب پڑھا ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کسی کتاب اور کسی شخص کی عمر سو سال سے بھی زیادہ نہیں ہوئی ہے۔ جانتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ یعنی چالیس پچاس سال بھی نہیں گزرتے اور یہ واضح ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ آدمی نے یہاں غلطی کی ہے۔ کتاب میں یہ معلومات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس میں یہ دعویٰ ٹھیک نہیں کیا گیا۔ اس میں یہ بات صحیح نہیں بتائی گئی۔ یعنی پچاس سال بھی نہیں گزرتے۔ میں استخفاف کی بات نہیں کر رہا، آپ کسی کو پڑھ لیجیے۔ نیوٹن پر سو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اس کا بنایا ہوا قصر مسمار ہونا شروع ہو گیا۔ علامہ اقبال نے جو خطبات لکھے ہیں وہ بڑے لوگوں میں سے ہیں۔ یہ انیس سو اٹھائیس کے قریب خطبات دیے ہیں انہوں نے۔ میرے ساتھ آ کے مل کے پڑھ لیجیے، معلوم ہو جائے گا کہ کیا کیا چیزیں غلط ہو گئی ہیں۔“
بہت عجیب قسم کا جواب دیا گیا۔ اس میں جو غلطی ہے ، اس کو پہلے واضح کردوں۔
منطق کے طالبِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ ارسطو کی کتاب ”دی آرگینن“ نے دو ہزار برس تک انسانی ذہن پر حکومت کی ہے۔ عمانوئیل کانٹ لکھتا ہے کہ ارسطو نے جو اصول پیش کیے، ان میں ایک ذرے برابر بھی کوئی ترمیم یا اضافہ نہیں کیا گیا۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ
استخراجی منطق جس کی بنیاد ارسطو نے رکھی تھی، کیا وہ استخراجی منطق ختم ہو چکی اور اس کی جگہ کوئی اور منطق لے چکی ہے؟
اس کا جواب یہی ہو گا کہ استخراجی منطق وہی ہے، جس کے اصول و قواعد ارسطو نے وضع کیے تھے۔ وہی استخراجی منطق ہے جس میں دیگر منطقین نے مزید گہرائی پیدا کی، اسے ریاضیات کے ساتھ جوڑ کر ریاضیاتی منطق میں تبدیل کر دیا، لیکن اس کا منہج استخراجی ہی رہا۔
بالکل اسی طرح منطق کے طالبِ علم یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ارسطو نے منطق استقرائی پر بھی طویل بحث کی تھی۔ اس حوالے سے ارسطو ہی منطق استقرائی کا بانی ہے۔ لہذا آج پچیس سو برس بعد بھی استخراجی اور استقرائی منطق پوری شان کے ساتھ موجود ہیں۔
ایک اور مثال سے سمجھیے۔
ارسطو وہ پہلا فلسفی ہے جس نے ”طبیعات“ پر ایک مربوط اور منظم کتاب لکھی اور طبیعات کی بطور علم بنیادیں استوار کیں۔ طبیعات بطور علم آج بھی موجود ہے، اور یہی ارسطو کا عظیم کارنامہ تھا کہ اس نے جس علم کی بنیاد رکھی اسی کی وجہ سے انسان آج کائنات کے بارے میں بے شمار حقائق سے آگاہ ہو چکا ہے۔
جو چیز مذہبی اسکالرز سمجھ نہیں پاتے وہ یہ ہے کہ عقائد جامد ہوتے ہیں، ان کا جمود ان کے درست ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔ عقائد کے صحیح یا غلط ہونے کا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ دوسری سائنسوں سے ٹکراتے ہیں، ان معنوں میں کہ وہ دیگر سائنسوں کے ساتھ تضاد میں آجاتے ہیں۔
میں پھر ایک مثال دوں گا۔
آیت اللہ خوئی کی کتاب “معجزہ” اٹھا کر دیکھیے۔ وہ صرف پچاس سال پہلے قرآن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ زمین حرکت میں ہے ۔ اس کے لیے وہ قرآن سے آیت پیش کرتے ہیں۔
اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِہٰدًا ۙ﴿سورہ النباء ۶﴾
کیا ہم نے زمین کو گہوارہ نہیں بنایا؟
جبکہ ان سے صرف سو سال پرانی تفاسیر اٹھا کر دیکھ لیں، زمین کو ساکت مان کر قران کی تفسیر کی گئیں تھیں اور اس نظریہ کو بھی قرآن سے ثابت کیا گیا تھا۔
اَللّٰہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ قَرَارًا (سورہ غافر آیت 64)
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا
یہاں جائے قرار سے مراد یہ لی گئی کہ زمین ساکن ہے۔
یہ امر بھی باعثِ حیرت نہیں ہے جب یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے، یہ صرف خدا جانتا ہے۔ جب سائنس نے اس راز سے بھی پردہ اٹھادیا تو لڑکی اور لڑکے کی جگہ ”شخصیت“ کو رکھ دیا گیا۔ یعنی جب سائنسی حقائق مذہب کے ”مسلمات“ سے ٹکرائیں، تو مذہبی مسلمات کی تعبیرات تبدیل کر دی جائیں، بعد ازاں یہ بھی دعویٰ کر دیا جائے کہ ہزاروں برس گزر گئے، مذہب آج بھی اپنی کُلی صداقت کے ساتھ موجود ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اسکالر صاحب علمی کتابوں کو مذہبی بنیاد پر پرکھنے کے بعد کہتے ہیں،
”جب آپ قرانِ مجید کو پڑھیں۔۔۔ تو اس کتاب کی کسی ایک چیز کو مار کر دکھائیے۔اس کا حرف حرف آپ کو بتا دے گا کہ یہ زندہ جاوید کتاب ہے۔“ مزید کہتے ہیں کہ ”دنیا میں علمی انقلاب برپا ہو گئے۔ پرانا علم مر گیا، لیکن یہ کتاب کھڑی ہے۔اور یہ کتاب حرف حرف کے ساتھ کھڑی ہے۔“
سب سے پہلے تو یہ بنیادی بات واضح ہونی چاہیے کہ کوئی بھی عقیدہ ہو وہ ’جامد‘ ہوتا ہے، اور اس کے جمود پر صرف ایمان رکھنا مقصود ہوتا ہے اور اس جمود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلیل دینی پڑتی ہے۔
اسکالر صاحب نے ’جمود‘ کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔
اس کو چند مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
ہم مفسرین کی بیسیوں کتابوں میں یہ پڑھ چکے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین ”چپٹی“ ہے،لیکن جب سے سائنس نے یہ تصدیق کر دی کہ زمین چپٹی نہیں ’کروی‘ ہے تو اس کے بعد تعبیرات تبدیل کر دی گئیں۔ حالانکہ یونانی فلسفی ڈھائی ہزار برس قبل یہ بتا چکے تھے کہ زمین ’کروی‘ ہے۔
یونانی فلسفی انیکسی مینڈر نے چھبیس سو برس قبل بتایا کہ انسان گیلی مٹی سے ایک حیوانی وجود بنا اور بعد ازاں اس کا ارتقا انسانی شکل میں ہوا۔
سٹیفن ہاکنگ نے اپنی آخری تصنیف ”بڑے سوالات کے مختصر جوابات“ میں تین سو برس قبل از مسیح یونان میں پیدا ہونے والے فلسفی ارسٹارکس کا ذکر بہت احترام سے کیا ہے۔ ارسٹارکس ایک ایسا فلسفی تھا جس نے کہا کہ گرہن بالخصوص چاند گرہن کا سبب دیوتا نہیں ہیں۔
ہاکنگ لکھتا ہے کہ اس نے چاند گرہن کی جو وجوہات بیان کی تھیں، آج بھی انہیں صحیح تسلیم کیا جاتا ہے۔
ارسٹارکس نے یہ نتیجہ بھی نکالا تھا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے۔اس نے خاکوں (Diagrams) کی مدد سے سورج، چاند اور زمین کے درمیان ”حقیقی تعلق“ معلوم کیا۔ ہاکنگ مزید کہتا ہے کہ یہ ارسٹارکس ہی تھا جس نے معلوم کیا کہ ستارے آسمان پر ”شُقُوق (Chinks) کی طرح نہیں ہیں، بلکہ ہمارے سورج ہی کی طرح ہیں۔ ایسے سینکڑوں خیالات ہیں جو قدیم فلسفیوں، سائنس دانوں اور مفکروں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود پیش کیے، اور جدید سائنس نے ان پر صداقت کی مُہر ثبت کر دی۔
اسکالر صاحب کے نزدیک مقدس کتابوں میں جو کہا گیا وہ صحیح ہے، اور دنیاوی علوم پر مبنی کتابوں کے مشمولات سو سال میں ہی غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ
مسلمان ممالک میں غلاموں اور لونڈیوں کے بارے میں خیالات پر مبنی قوانین چودہ سو برس تک موجود رہے تا وقتیکہ گزشتہ صدی ستر کی دہائی میں اقوامِ متحدہ کے قوانین کی پیروی میں انہیں غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ آج خود انسانیت نے اس نظریہ کو اٹھا کر پھینک دیا ہے جس کے لیے “مقدس” کتابوں میں احکامات موجود تھے۔ یہاں نسخ کا اطلاق مکمل طور پر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
مذہبی تاریخ میں عورت کو لیڈر ، قاضی اور مذہبی اسکالر کبھی نہیں مانا گیا۔ خاص طور پر اہل تشیع میں اجماع ہے کہ عورت “مرجع تقلید” نہیں بن سکتی ۔
آج نجف کے ایک مرجع عالی قدر جناب اسحاق فیاض صاحب اس اجماع کو سائڈ میں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ عورت پولیٹیکل لیڈر، جج یا مرجع تقلید نہیں بن سکتی۔ ان مناصب کے لیے اسے انہی پراسیس سے گزرنا ہوگا جن سے مرد گزرتے ہیں۔ اگر وہ ان مراحل سے بخوبی گزر جاتی ہے تو کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس کو ان مناصب پر براجمان ہونے سے روکا جائے۔
پاکستان کی عائشہ اے ملک جو سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر ہوئیں ان کی بعض ججمنٹ اتنی زبردست ہیں وہ دنیا میں بطور مثال جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔
یہاں صاف نظر آتا ہے کہ حالات تبدیل ہو جائیں تو احکامات میں تبدیلی آتی ہے۔ اگر آج بھی حالات بدل رہے ہیں اور ان بدلے ہوئے حالات میں خدا مزید وحی نہیں بھیجتا، تو یہ فریضہ عقل کو ہی ادا کرنا ہے کہ وہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق فیصلے کرے۔ اور جہاں تک عقل کی فعلیت کا تعلق ہو تو تغیر اس کی فعلیت کی لازمی صفت ہے۔ یہ بات علوم کی تاریخ سے واضح ہے۔
میں نے اپنے استاذ سے پوچھا کہ اس بات پر اجماع کا دعوی کیوں کیا جاتا ہے کہ عورت قضاوت نہیں کرسکتی تو انہوں نے ہنس کر بڑی لطیف بات کی۔
“بھائی یہ مردوں کا اجماع ہے کہ عورت قضاوت نہیں کرسکتی”
ابو جون رضا