انسان اور جانوروں کی پیغام رسانی کے انداز میں بلا کا فرق پایا جاتا ہے۔ انسان جس طرح سے زبان کا استعمال کرتا ہے، جس طرح سے ابلاغ کرتا ہے، یہ کسی جانور کے بس کی بات نہیں ہے۔ جانور صرف مخصوص پیغام رسانی تک محدود رہتے ہیں۔ وہ آپس میں اشاروں یا مخصوص آوازوں کے زریعے پیغام رسانی کرتے ہیں۔ لیکن وہ گفتگو انسانوں کی طرح نہیں کرتے۔
شہد کی مکھی کو جب کوئی پھولوں کا جھنڈ پتا چلتا ہے تو وہ چھتے میں آکر گول گول چکر کاٹتی ہے۔ اس طرح سے وہ سمت اور فاصلے کی نشاندھی کرتی ہے۔ لیکن وہ چھتے میں آکر باتیں نہیں کرتی کہ فلاں جگہ پر رسیلے پھولوں کا جھنڈ موجود ہے۔
بندروں کے جھنڈ میں ایک ریکارڈڈ آواز نشر کی گئی جو ایک بندر نے ہی نکالی تھی تو متوقعہ طور پر بندر کام چھوڑ کر خوفزدہ ہوکر آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔
دوسری طرف انسان ہے جس کی گفتگو اور زبان کا استعمال ایک پیچیدہ اور منفرد عمل ہے جو دیگر جانداروں سے بہت مختلف اور ترقی یافتہ ہے۔ گفتگو کے ذریعے انسان خیالات، جذبات، معلومات، اور تجربات کا اظہار کرتا ہے۔
انسان جملے بنانے کے لیے الفاظوں کو ایک منطقی اور گرامر کے قواعد کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔ اس ترتیب سے الفاظ بامعنی جملوں میں ڈھل جاتے ہیں اور مختلف خیالات، جذبات، اور معلومات کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
ایک مثال ؛
“بچے صوفے پر بیٹھے گاڑی گاڑی کھیل رہے تھے”
اس جملے سے دوسرا انسان کیا مراد لے گا؟
کیا یہ وہی گاڑی ہے جو چار پہیوں پر چلتی ہے؟
اس جملے سے دوسرا انسان یہ معنی اخذ کرے گا کہ کچھ بچے صوفے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور “گاڑی گاڑی” کھیل رہے ہیں، جو ایک عام کھیل ہو سکتا ہے جس میں بچے فرضی یا کھلونا گاڑیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دوڑاتے یا چلاتے ہیں۔ اس جملے میں:
بچے: بچے بطور فاعل موجود ہیں۔
صوفے پر بیٹھے: بچے ایک صوفے پر بیٹھے ہوئے ہیں، جو مقام بتا رہا ہے۔
گاڑی گاڑی کھیل رہے تھے: بچے کسی کھیل میں مشغول ہیں جسے “گاڑی گاڑی” کہا گیا ہے، یعنی وہ گاڑیوں سے متعلق کھیل رہے ہیں۔
یہ جملہ عام طور پر بچوں کی معصومیت اور تفریح کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسرا انسان اس جملے سے یہی سمجھے گا کہ بچے خوشی اور مزے میں فرضی یا کھلونا گاڑیوں کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
ایک دوسری مثال ؛
ایک انسان جو بنک میں جاب کرتا ہے اور اس کا کام آفس ورک ہے۔ اتفاق سے ایک دن اس کو گاڑی میں کئی کلائنٹس کے پاس جانا پڑا۔ جس میں دن کے کئی قیمتی گھنٹے صرف ہوگئے۔ وہ گھر آکر بیوی سے کہتا ہے کہ
“آج تو سارا دن روڈ پر گزر گیا”
کیا اس کی بیوی یہ سمجھے گی کہ وہ سارا دن سڑک پر چلتا رہا؟ دوسرا انسان یہ جملہ سنے گا تو کیا مراد لے گا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ
جب ایک انسان کہتا ہے کہ “آج تو سارا دن روڈ پر گزر گیا”، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ سارا دن پیدل چلتا رہا یا صرف سڑک پر ہی رہا۔ اس جملے سے مراد ہوتی ہے کہ اس نے دن کا زیادہ تر حصہ سفر میں یا سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہوئے گزارا۔
دوسرا انسان یہ جملہ سن کر سمجھ جائے گا کہ:
اس شخص نے دن بھر گاڑی میں سفر کیا اور مختلف کلائنٹس کے پاس جانا پڑا۔
اس کی زیادہ تر توانائی اور وقت سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے یا سفر کرنے میں صرف ہو گیا۔
یہ ایک اظہار ہے کہ دفتر کا کام کرنے کے بجائے زیادہ وقت سفر میں لگ گیا۔
لہٰذا، “سارا دن روڈ پر گزر گیا” کا مطلب عام طور پر سفر کی وجہ سے مصروفیت یا تھکاوٹ کا اظہار ہوتا ہے، اور یہ کسی بھی طرح پیدل چلنے کا اشارہ نہیں دیتا۔
یہ دو معمولی سی مثالیں ہیں۔ نطق بہت بڑی صلاحیت ہے جو صرف انسانوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان اشاروں سے ، لمس سے ، مختلف حرکات و سکنات سے بھی پیغام رسانی کرتا ہے اگرچہ کہ ان کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے
انسانوں کی اس صلاحیت پر غور کیجیے، پھر ان تمام روایات کو ذہن میں دہرائیے جو آپ نے پڑھیں یا سنیں جن میں پرندوں یا جانوروں کے انسانوں سے گفتگو کرنے ذکر موجود ہے. آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح سے لوگوں کو بیوقوف بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جانوروں کے عربی میں ذکر خدا کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ عربی جب ارتقاء کی منازل سے گزر رہی تھی تو جانور کس زبان میں ذکر خدا کرتے تھے؟
ہمارے یہاں طریقہ کار یہ ہے کہ ہر معاملے میں مشاہدہ اور تجربہ کو پس پشت ڈال کر مذہبی حوالے سے چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔
اگر کسی نبی کے خاص کسی پرندہ یا جانور سے کوئی گفتگو قرآن میں موجود ہے تو اس کو معجزاتی امر قرار دیں گے۔ اس کا اطلاق دوسروں لوگوں پر نہیں کیا جاسکتا۔ نبی کا کسی پرندے کی بات سمجھ لینا مابعد الطبیعیاتی امر ہے۔ اس کو کسی طریقے سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
مختصر یہ کہ مچھر صرف ڈینگی کے ایڈ میں باتیں کرتےہیں
“چلو یار ! آؤ خون چوستے ہیں، یہ کوائل تو دھواں بھی کم دیتا ہے”
ابو جون رضا