
(ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی کتاب کا ایک جائزہ)
حال ہی میں معروف بینکار اور ماہرِ معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی کتاب “اسلامی بینکاری: غیر سودی یا سودی استحصالی؟” شائع ہوئی۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب عرصۂ دراز سے بینکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس لیے بڑے شوق و اشتیاق سے کتاب منگوائی کہ دیکھیں ان کی نظر میں اسلامی بینکاری کی حقیقت کیا ہے۔ مگر مطالعے کے آغاز ہی میں توقعات پر پانی پھر گیا۔ کتاب میں پیش کردہ اعتراضات نہ صرف سطحی تھے بلکہ علمی و تحقیقی معیار کے لحاظ سے اوسط درجے سے بھی کم محسوس ہوئے۔
مجھے امید نہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب جیسی شخصیت اتنی کمزور بنیادوں پر تنقید کرے گی۔
اسی دوران میں نے ان کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں وہ اقراء یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کررہے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ
“میزان بینک نے فلاں سال اتنے ارب روپے منافع کمایا مگر کھاتہ داروں کو کم منافع دیا”
جب اینکر نے پوچھا کہ جو منافع کھاتہ داروں کو دیا جانا تھا مگر نہیں دیا گیا، اس کا کیا ہوگا؟ تو ڈاکٹر صاحب نے طنزیہ لہجے میں کہا:
“یہ سوال اگر آپ میزان بینک والوں سے کریں تو وہ کہیں گے کہ باقی منافع جنت میں ملے گا”
یہ سن کر حاضرین نے قہقہے لگائے، پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ “خیر، ان کی طرف سے کوئی نہ کوئی تاویل ضرور پیش کردی جائے گی”
میرے نزدیک صرف اسی جملے پر میزان بینک کی جانب سے ان پر قانونی چارہ جوئی کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے، کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے ایک ادارے کا نام لے کر وہ الفاظ منسوب کیے جو اس نے کہے ہی نہیں۔
یہ درست ہے کہ میزان بینک نے بعض برسوں میں کھاتہ داروں کو نسبتاً کم منافع دیا، مگر اس کی وجوہات عملی نوعیت کی ہوسکتی ہیں۔ بینک اپنے ڈپازٹس کو مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اگر مناسب سرمایہ کاری کے مواقع کم ہوں تو بینک ڈپازٹرز کو زیادہ منافع نہیں دے سکتا۔ آخر وہ یہ تو نہیں کہے گا کہ اپنا سرمایہ واپس لے جائیں۔ اس صورت میں منافع کم رکھنا ایک انتظامی ضرورت بن جاتی ہے، اور اگر کھاتہ دار اس کے باوجود اپنا سرمایہ وہیں رکھے رہیں تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔
مزید یہ کہ اسٹیٹ بینک نے حال ہی میں اسلامی بینکوں کو پابند کیا ہے کہ وہ کم از کم 75 فیصد منافع کھاتہ داروں میں تقسیم کریں اور صرف 25 فیصد اپنے لیے رکھیں۔ یہ ضابطہ اگرچہ بینکوں کے لیے ایک چیلنج ہے، مگر یہی ریگولیٹر کا کام ہے کہ وہ نظام کی نگرانی کرے اور جہاں اصلاح درکار ہو وہاں مداخلت کرے۔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں اس اہم پہلو کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے دوسرے اسلامی بینکوں کی کارکردگی پر روشنی ہی نہیں ڈالی۔ ان کی تحریر سے یوں تاثر ملتا ہے جیسے پاکستان میں صرف ایک ہی اسلامی بینک، یعنی میزان بینک، کام کررہا ہے۔
کتاب میں ایک چارٹ کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ اسلامی بینکوں نے گھروں، گاڑیوں اور دیگر پرتعیش اشیاء کی فنانسنگ میں زیادہ سرمایہ کاری کی، جب کہ روایتی بینک چھوٹے تاجروں اور کسانوں کو قرضے فراہم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک یہ طرزِ عمل “اسلامی معیشت کے مقاصد” کے خلاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں غیر اسلامی پہلو آخر کیا ہے؟ کیا سیکیور فنانسنگ کرنا بینکوں کی ذمہ داری نہیں؟ اگر کلائنٹس خود اس قسم کی مصنوعات کے لیے روایتی بنکس کی طرف رجوع کریں، تو اسلامی بینکوں کا اس میں کیا قصور؟
کتاب میں متعدد قرآنی آیات اور احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں سود کی حرمت اور اس کے عذاب کا ذکر ہے، مگر حیرت انگیز طور پر پچاس صفحات کے مطالعے کے بعد بھی یہ سمجھ نہیں آیا کہ اسلامی بینک “سود” کیسے کھا رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان کا فتویٰ نقل کر کے یہ تاثر دیا ہے کہ تمام علماء اس کے ہم نوا ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خود دیوبند مکتبِ فکر کے کئی علماء اس رائے سے متفق نہیں۔
کتاب میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مغربی ممالک میں غیر سودی بینکاری فروغ پارہی ہے کیونکہ اس میں خطرہ کم اور منافع زیادہ ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ واضح نہیں کیا کہ “خطرہ کم کیوں ہے” اور یہ نظام کس طرح غیر شرعی ہے۔ صرف دو جملوں میں پورا معاملہ نمٹا دیا گیا۔
مزید برآں، انہوں نے شریعت کورٹ کے اُس فیصلے پر بھی اعتراض کیا ہے جس میں روایتی بینکوں کو 2027 تک اسلامی اصولوں کے مطابق تبدیل ہونے کی مہلت دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت کو ایک ہی مرتبہ میں تمام روایتی بینک بند کردینے چاہیے تھے؟ یا محض اگلے دن سے اسلامی نام رکھ کر کام شروع کرنے کا کہہ دینا چاہیے تھا؟ ظاہر ہے نظام کی تبدیلی ایک تدریجی عمل ہے، جس کے لیے وقت، تربیت اور قانونی اصلاحات درکار ہوتی ہیں۔
کتاب میں تکرار بھی بہت ہے۔ مثلاً ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کے بارے میں ایک ہی واقعہ کو دو مختلف جگہوں پر تقریباً ایک ہی انداز میں دہرایا گیا ہے۔
سب سے حیران کن بات وہ تھی جو ڈاکٹر صاحب نے اسلامی بینکوں کے کرنٹ اکاؤنٹس کے بارے میں لکھی۔ ان کے بقول، “31 دسمبر 2024ء تک اسلامی بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس 7905 ارب روپے تھے، جن میں نصف رقم جاری کھاتوں میں تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تاجر برادری کی بڑی تعداد اسلامی بینکوں کے منافع کو بھی سود سمجھتی ہے”
یہ استدلال نہ صرف کمزور ہے بلکہ حقائق کے برعکس بھی۔ کرنٹ اکاؤنٹس کے صارفین اپنی سہولت اور کاروباری ضروریات کے باعث رقم وہاں رکھتے ہیں، اس سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ وہ بینک کو سودی سمجھتے ہیں، سراسر قیاس آرائی ہے۔
اگر یہی منطق درست مانی جائے تو پھر روایتی بینکوں میں رکھے گئے کھاتوں کے بارے میں بھی یہ کہنا پڑے گا کہ ان کے کھاتہ دار سود کو حلال سمجھتے ہیں، جو کہ ایک غیر سنجیدہ دعویٰ ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب نے تاجروں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ اسلامی بینکوں کو دھمکی دیں کہ اگر وہ اپنے معاملات شرعی تقاضوں کے مطابق درست نہیں کریں گے تو وہ اپنا سرمایہ نکال لیں گے۔ پھر خود ہی نتیجہ لکھ دیا کہ یہ اقدام “اسلام کی بڑی خدمت” ہوگا۔
لیکن اگر کھاتہ دار واقعی ایسا کر گزریں تو سوال یہ ہے کہ وہ اپنی رقم رکھیں گے کہاں؟ کیا ڈاکٹر صاحب اپنی تجوری میں رکھیں گے یا انہی روایتی بینکوں میں جنہیں وہ ناجائز قرار دیتے ہیں؟
چار ابواب پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ مزید مطالعہ شاید وقت کا زیاں ہوگا۔
(باقی آئندہ)
ابو جون رضا