کچھ مجالس کی رام کہانی، سنجیدہ سوالات

صفر کے مہینے میں ہر سال مجالس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ خواتین کی مجالس مردوں سے زیادہ ہوتی ہیں، اور اسی مناسبت سے اساطیری کہانیوں کا سیلاب ہمارے شیعہ معاشرے میں اُبھر آتا ہے۔

ایک زاکرہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک زائر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو آیا تھا، پرانے پھٹے کپڑے پہنے، دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر چاول کھا رہا تھا اور سامنے بھی ہاتھ سے اچھالتا جارہا تھا۔ خداموں نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا۔ رات کو امام حسین علیہ السلام ایک خدام کے خواب میں آئے اور فرمایا:

“وہ ہمارا زائر تھا، بہت دور سے پیدل چل کر آیا، تم نے اسے بھگا دیا، وہ نوالے ہمیں دے رہا تھا”


خواتین کی ایک مجلس جسے کفنی مجلس کہتے ہیں، وہاں منت مانگی جاتی ہے، اور اگر منت پوری ہو جائے تو امام حسین علیہ السلام کے نام کا کفن اگلے سال ہدیہ کیا جاتا ہے۔ ہر سال بے تحاشہ کفن نذر کیے جاتے ہیں، واللہ اعلم صاحب خانہ ان کا کیا کرتی ہیں؟


ایک خاتون زاکرہ فرماتی ہیں کہ ایک شخص حضرت عباس علیہ السلام کے بارے میں کہتا تھا کہ وہ کوئی معجزاتی شخصیت نہیں ہیں۔ اسے زبردستی روضہ حضرت عباس علیہ السلام پر لے جایا گیا۔ جیسے ہی اس نے وہاں قدم رکھا، اچانک خوفزدہ ہو کر دوڑنے لگا اور گر کر بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو اس نے بتایا کہ حضرت عباس علیہ السلام چابک لئے کھڑے تھے اور انہوں نے اسے مارا تھا۔


یہ چند کہانیاں میرے خاندان کی خواتین سے حال ہی میں سننے کو ملیں۔ ایک مشہور مولانا، جو ایم بی اے کر چکے ہیں اور بڑے سہل انداز میں بات کرتے ہیں، سات سے بارہ سال کے بچوں کی محفل میں آئے اور ایک ایرانی بچے کی داستان سنائی جس نے حضرت قاسم علیہ السلام سے متاثر ہو کر ایران عراق جنگ میں ایک پل کو خودکش حملہ کر کے تباہ کر دیا تھا۔ وہ بچہ ایران میں ہیرو مانا جاتا ہے، اور اس کی قبر پر چھوٹا ٹینک نصب ہے۔

جب ہم ان کہانیوں کو سنتے ہیں تو دل میں سوال اٹھتا ہے:
یہ اوٹ پٹانگ باتیں ہیں یا یہ دین ہے؟

کیا ہماری توحید کا مطلب بس یہ ہے کہ ایک “برہمانڈ” میں پندرہ بیس دیوی دیوتا چکر لگائیں اور مسائل حل کریں؟
جو ایمان نہ لائے، اس کی دنیا و آخرت برباد کردیں۔

میرا سوال ہے:

ایران کے جنگی ہیرو نما بچے کا پاکستان کے بچوں سے کیا تعلق؟

یہاں بھی تو جنگیں ہوئیں، یہاں بھی تو بچوں نے جانیں دی ہیں، جیسے اے پی ایس کے شہداء۔

کیا ان کہانیوں سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو خودکش بمبار بنانا چاہتے ہیں ؟

کبھی سوچیے،

کربلا کے واقعے میں شہداء کے سر کاٹے گئے، لاشیں پامال ہوئیں۔

“حضرت عباس علیہ السلام کو اللہ نے سر واپس دیا، مگر ہاتھ نہیں لوٹائے۔ وہ ہاتھوں کے بغیر دنیا میں آتے جاتے رہتے ہیں”

کیوں؟

جب متوکل نے کربلا میں پانی بند کر دیا، تب کوئی معجزہ کیوں نہیں ہوا؟

یہ سب معجزات، کفنی مجالس اور اساطیر کیا صرف آنے والی نسلوں کے لیے داستانیں ہیں؟

اگر آج کسی مقدس روضے کے خدام اعلان کریں کہ امام حسین ع نے خواب میں آکر اعلان کیا ہے کہ جو اگلے سال میری زیارت کرے گا اور خلوص نیت رکھے گا، میں اسے اپنے پاس بلا لوں گا،

تو شاید سادہ دل لوگ تو پہنچ جائیں گے،

لیکن وہ سب لوگ جو امام کے نام پر سارا سال پیسہ کماتے ہیں، نوحے، منقبت پڑھتے ہیں، کیا وہ بھی جائیں گے؟

شاید نہیں،

وہ منبر جو اب اغیار کے قبضے میں ہیں، وہاں عقلیں گھانس چر رہی ہیں۔

آج ہمارے معاشرے میں عقل و شعور کو اُجاگر کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

ایسی بے بنیاد کہانیوں میں پڑ کر ہم اصل حقائق سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *