ولایت فقیہ اور امام مہدی – ایک مختصر تجزیہ

اس جدید دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ خبر سچی ہو یا جھوٹی ایک سیکنڈ میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچتی ہے، سوالات کا اٹھایا جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ آج قرآن کریم پر ، وجود خدا پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں کسی غائب شخص، جو ہزار سال سے زندہ ہے ، مگر دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے، پر سوال اٹھایا جانا ایک فطری بات ہے۔ ہزار سال ہوگئے، کاغذ پر لکھی ہوئی دو سطریں بھی ایسے کسی شخص سے نشر نہیں ہوئیں جو اس پورے زمانے کا امام ہے۔ کوئی ایسی خبر مستند ذرائع سے سامنے نہیں آئی جو امام معصوم کے وجود کا پتا دیتی۔

اہل تشیع متقدمین اس مسئلے کو اچھے سے سمجھتے تھے ، اسی وجہ سے وہ اخبار کو رجال پر پرکھنے کے حوالے سے سختی سے کام نہیں لیتے تھے، بلکہ اس کو اہل تسنن کا بنایا ہوا ایک ٹول قرار دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر اس معاملے میں سختی سے کام لیا جائے تو بارہویں امام کے نائبین کا وجود تو دور کی بات، خود امام مہدی کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، کیونکہ ان کو بچپن میں دیکھنے کا دعوی کرنے والے بھی چند ہی افراد تھے اور ان کی غیبت کے زمانے میں تو کوئی زریعہ نہیں ہے جو یہ ثابت کرسکے کہ غیبت صغری میں وہ کسی سے رابطے میں ہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اہل تشیع کی فکر ہمیشہ سے یہ رہی کہ حکومت ائمہ اہل بیت کا حق ہے، ان کی جگہ جو بھی شخص اقتدار پر بیٹھے گا، وہ غاصب ہوگا۔

ان کے یہاں روایات موجود تھیں کہ جو بھی جھنڈا قائم سے پہلے لہرائے، وہ کفر و ضلالت کا پرچم ہے اور اس کو اٹھانے والا طاغوت ہے۔ اس بناء پر شروع سے اہل تشیع علماء حکمرانوں سے دوری بنائے رکھنے کے قائل تھے۔ اگر حاکم کی کوئی مدد ہوسکتی ہے تو صرف مشوروں کی حد تک کی جاسکتی ہے، ورنہ انتظار بہتر ہے۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ زمانہ اس رفتار سے آگے بڑھا کہ حکومت کی تشکیل ایک ضرورت بن کر سامنے آئی۔ اہل تشیع علماء خود کو نائب امام کے طور پر پیش تو کرتے تھے مگر زمام اقتدار ہاتھ میں لینے کا حق صرف امام مہدی کے لیے مخصوص سمجھتے تھے۔

آیت اللہ روح اللہ خمینی نے محسوس کیا کہ ہزار سال سے ایک شخص کا کچھ اتا پتا نہیں ہے اور آگے بھی امام کے ظہور کے کچھ آثار نظر نہیں آتے۔ اگر اہل تشیع عادل علماء اقتدار سے دور رہے ، جو نائب امام ہونے کی حیثیت سے ان کا حق ہے تو ہمیشہ یہی چکر چلتا رہے گا کہ حکمران بدلے گا، چہرہ بدلے گا، علماء اس کی کبھی سپورٹ میں تو کبھی مخالفت میں کھڑے ہوتے رہیں گے، لیکن معاشرے کے مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔ مستقبل میں یہاں تک بھی ہوسکتا ہے کہ علماء کا کردار اس حد تک محدود کردیا جائے کہ وہ اپنی درس گاہوں میں صرف و نحو پڑھاتے رہیں یا امام کے فراق میں گریہ کرتے رہیں، اس کے علاوہ ان کو اس قابل بھی نہ سمجھا جائے کہ کسی معاملے میں ان سے مشورہ لیا جائے۔

امام خمینی نے سوال اٹھایا کہ اگر خدا امام کے ظہور میں دس ہزار سال مزید تاخیر کردیتا ہے تو سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سد باب، غیر اسلامی کاموں کی روک تھام، حدود کا اجراء اور مستضعفین جہاں کی داد رسی کون کرے گا ؟ حکومت تو عادل اور نفس کی پیروی نہ کرنے والا انسان ہی کرسکتا ہے جو قرآن و سنت کا سب سے بڑھ کر جاننے والا ہو۔

اس بات کے تانے بانے رسول اکرم کے بعد خلافت کے نااہل افراد کے ہاتھوں میں چلی جانے والی سوچ سے ملتے ہیں۔ جب آپ یہ کلیم کرتے ہیں کہ امام عادل ہی اقتدار کو درست انداز میں چلا سکتا ہے تو کوئی بھی انسان چاہے وہ شیعہ اثنا عشری ہی کیوں نہ ہو، سماج کی نبض کو اس طرح سے نہیں سمجھ سکتا جس طرح سے امام سمجھتے ہیں۔

یہ مشکل امام خمینی کے پیش نظر بھی تھی۔ لیکن ان کے خیال میں آنے والا دور اتنا کھٹن ہے کہ رونے پیٹنے اور امام کے فراق میں آنسو بہانے سے کام نہیں بنے گا ۔ اب ایک ہی حل تھا ، وہ یہ کہ حکومت کی باگ دوڑ نائب امام، یعنی علماء اپنے ہاتھ میں لیں تاکہ غیروں کے غلبے کو روکا جاسکے۔ اس کے لیے امام خمینی نے ولایت فقیہ کے نظریے کو وسعت دی اور زمام اقتدار کھینچ کر مذہبی علماء کے ہاتھوں میں تھما دی۔

یہ تبدیلی شیعت کی بنیادی تعلیمات کے بالکل مخالف سمت میں جا کھڑی ہوئی۔ امام خیمنی کے نظریے کو مان لینے کا صرف ایک ہی مطلب نکلتا تھا کہ شیعہ اپنے اس عقیدہ سے دستبردار ہوجائیں کہ حکومت کرنے کا حق صرف امام معصوم کے پاس ہے۔

امام خمینی کے نظریہ کے مخالف علماء جانتے تھے کہ یہ شیعوں کے ہزار سالہ کلیم کے مخالف بات ہے، اگر آج غیر معصوم حکومت کرسکتا ہے تو رسول اکرم کے بعد بھی غیر معصوم حکومت کرسکتا ہے۔ غلطیاں کسی سے بھی ہوسکتی ہیں، کم یا زیادہ کی بحث ایک الگ معاملہ ہے۔

دوسرا یہ کہ ولی فقیہ کو جو اختیارات دیے گئے وہ بعینہ وہی تھے جو امام معصوم کے پاس تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جارہا تھا کہ امام مہدی کی آمد کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ولی فقیہ ہی امام مہدی ہے، ولی فقیہ ہی امام معصوم ہے۔ وہ وہی کام کررہا ہے جو امام مہدی نے آکر انجام دینے تھے۔

اس نظریے کے حامیوں نے توقع کے عین مطابق تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے بزرگ علماء کی توہین کی۔ نجف اور بعض قمی علماء کو خمس خور اور حکومت کے پٹھو کا خطاب دیا گیا۔ اس بات کی تحریک ان کو امام خمینی کی فکر سے ہی ملی تھی جنہوں نے حوضہ میں درس و تدریس میں مشغول علماء کو علماء سوء قرار دیا جو ظلم کے خلاف حوضہ سے باہر نہیں نکلتے اور اپنے درس و خمس کی جمع آوری سے مطلب رکھتے ہیں۔

امام خمینی جانتے تھے کہ ہزار سال سے منجمد سوچ کو بدلنا آسان نہیں یے ، یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب عوام کی تائید انہیں حاصل ہو اور حوضے میں بیٹھے علماء کے گریبان جب تک چاک نہیں ہونگے، تب تک برف نہیں پگلے گی۔

امام خمینی کو حکومت کا ملنا اور شاہ کے مظبوط اقتدار کا تہس نہس ہوجانا ، لوگوں کے لیے ایک ایسی دلیل بن گیا کہ وہ سمجھے کہ بس اب بارہویں امام معصوم کی آمد ہی آمد ہے، یہ اقتدار اصل میں پوری دنیا میں انقلاب کی پہلی سیڑھی بنا ہے۔

حالات نے اس طرح سے کروٹ لی تھی کہ بڑے بڑے علماء کرام چپ سادھ کر یا تو گھر بیٹھ گئے تھے یا انقلاب کے ہمنواء بن گئے تھے۔ ایرانی حکومت نے بھی امام معصوم کے جلد ظہور کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنا شروع کیا۔ پاکستان میں دعائے ندبہ کی محافل کا انعقاد ہونے لگا، دعائے سلامتی امام زمان، دعائے تعجیل فرج ، درود کے ساتھ “وعجل فرجھم” کا اضافہ ، مسجد جمکران جو ایک خواب کی بنیاد پر بنائی گئی، اس کو خصوصی اہمیت دینا وغیرہ جیسے اقدام اصل میں دنیا کو یہ بتانے کے لیے تھے کہ ایرانی حکومت اور ولی فقیہ بھی امام کی آمد میں پلکیں بچھائے، سر تسلیم خم کیے کھڑے ہیں۔

آج جب انقلاب کو بھی پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، امام معصوم کی آمد کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ بہت سے محاذوں پر ایران کی پسپائی اور خاموشی نے دوبارہ سے ولایت فقیہ کے مخالفین کے منہ میں زبان دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نظریہ ولایت فقیہ نے شیعت کو بہت نقصان پہنچایا ہے، شیعہ اپنی اصل سے ہٹ گئے ہیں۔ آج یہ نظریہ، ایران میں جبر کی بنیاد پر قائم ہے، اگر خدا نخواستہ یہ حکومت گرتی ہے تو شیعت کی بنیادیں اپنی جڑوں سے اکھڑ جائیں گی، پوری دنیا میں اہل تشیع کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

جہاں تک نظریہ کی بات ہے، مخالفین صحیح مقام پر کھڑے ہیں، مگر وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ اب اس جدید دور میں کسی غائب شخص کو زور لگا کر باہر نکالنے کی کوششوں اور دعاؤں سے کام نہیں چلے گا۔ اب عملی میدان میں بھی آپ کی آواز کی اتنی ویلیو ہونی چاہیے کہ دنیا اس کو سنے اور توجہ دے۔

بعض اسکالرز کے خیال میں مستقبل میں امام معصوم کے ظہور سے شیعہ مایوس ہوتے چلے جائیں گے، یا اس موضوع پر توقف کی راہ اختیار کریں گے کہ وہ آئیں نہ آئیں ، ہماری بلا سے ، جب کوئی آئے گا، تب دیکھا جائے گا۔

اج بھی میرے اطراف میں ایسے بہت سے شیعہ موجود ہیں جو اس موضوع کو وقت کا زیاں قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص ان کی عملی زندگی میں موجود نہیں ہے، اس کی سیرت ان تک نہیں پہنچی، اس پر آخرت میں سوال جواب کی باتیں صرف خوف کی فضاء بنانا اور ڈھکوسلے بازی کے سواء کچھ نہیں ہے۔ ان باتوں سے صرف سیاسی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں، ورنہ یہ نظریہ اپنی موت آپ مرگیا ہے۔

دعا ہے پروردگار اہل تشیع کو عقل و شعور دے اور ان کی نصرت فرمائے۔

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *