خود پسندی کا نشہ

کافی سال پہلے کی بات ہے۔ ایک معروف علامہ صاحب کا ایک محفل میں تذکرہ نکلا ۔ میں نے ان کے اسٹیمنا کی تعریف کی اور کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ وہ ڈھائی تین گھنٹے کیسے منبر پر براجمان رہتے ہیں؟ سوال جواب کی ایک نشست میں انہوں نے ایک دفعہ چار سے پانچ گھنٹے لکڑی کے منبر پر گزار دیے تھے۔ ہمارے ایک دوست نے کہا کہ یہ اصل میں ایک “نشہ” ہے جیسے کسی کو نوحے مرثیے یا منقبت پڑھنے کا نشہ لگ جائے۔ وہ جان دے دے گا مگر اپنی آواز کا جادو جگانا بند نہیں کرے گا ، چاہے لوگ منہ بنائے بیٹھے ہوں، اسی طرح سے پبلک بیٹھی ہے، آپ خطابت کے جوہر دکھا رہے ہیں، لوگ سن رہے ہیں، آپ کو مزا آرہا ہے۔ یہ ایک تیز نشہ ہے جس کو اللہ ہی اتار سکتا ہے۔ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔

میں کچھ وقتوں سے بینکرز کو ٹریننگ دے رہا ہوں۔ میں نے سرٹیفائیڈ پروفیشنل ٹرینر کا کورس کیا ہے۔ اس میں ہمیں سکھایا گیا تھا کہ آپ کا جتنا بھی دل چاہ رہا ہو کہ علم کے دریا بہا دیں، گھنٹوں بولتے رہیں مگر آپ کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہے۔ آپ کو سامعین کی قوت سماعت کا امتحان نہیں لینا چاہیے۔ ایک سیدھی آواز اگر مستقل کانوں سے ٹکراتی رہے تو کچھ دیر بعد دماغ اس کو اگنور کرنا شروع کردیتا ہے، الا یہ کہ مضمون میں سامعین کی دلچسپی برقرار رہے۔

میں نے بڑے بڑے ٹرینرز کو دیکھا جو دو لاکھ سے تین لاکھ ایک دن کے سیشن کے چارج کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پبلک کو کس طرح سے جگائے رکھنا ہے، کس طرح سے انرجی ہمہ وقت ان کے اندر پھونکنی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی بعض اوقات سبجیکٹ اتنا خشک ہوتا ہے کہ عوام ان کے آدھے سیشن میں بیزار ہوجاتی ہے ۔

ایک صاحب آج ٹریننگ سینٹر تشریف لائے، انہوں نے اسلامک بینکنگ پر سوال جواب کا سیشن شروع کیا۔ وہ نان ٹرینر تھے، ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ بات کہاں سے شروع کرنی ہے اور ختم کہاں پر کرنی ہے ۔ وہ ایک سوال کو لیکر جو شروع ہوتے تھے تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ دو گھنٹے گزر گئے۔ جب پانچ بجنے لگے تو میں نے کہا کہ اب سیشن کا اختتام کریں گے، یہ سنتے ہی موصوف نے فرمایا کہ ارے لوگوں کو سوال کرنے دو۔ یہ سیکھنا چاہ رہے ہیں۔ مجھے سکھانے دو۔ میں نے عرض کی کہ اس دو گھنٹے کے سیشن کی وجہ سے ہمارے کچھ ٹاپک بھی رہ گئے ہیں ، دوسرا یہ کہ ہمیں گھر بھی جانا ہے۔ محترم فرمانے لگے کہ کسی دن ہماری خاطر دیر تک بھی بیٹھ جاؤ۔ اب میں ان کو کیا کہتا کہ چائے کے بریک میں مجھے لوگوں نے کہا کہ ان کا جواب جتنا طول پکڑتا یے، اس سے بہتر ہے کہ ہم سوال ہی نہ کریں۔

یہاں مجھے اندازہ ہوا کہ خود پسندی کیسی بری بلا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس کو سب کچھ آتا ہے۔ وہ جب بولے گا تو ہوائیں ساکت ہوجائیں گی، پرندے پرواز بھول کر اس کا نغمہ سننے نیچے اتر آئیں گے مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ میں نے اچھے بھلے ٹرینر حضرات کا فیڈ بیک ایسا خراب دیکھا ہے کہ مجھے خود یقین نہیں آیا کہ ان کی اس قدر خراب ریٹنگ بھی سامعین دے سکتے ہیں۔

دنیا میں بڑے بڑے خطباء موجود ہیں، جو لاکھوں کے مجمع سے خطاب کریں گے تو پانچ منٹ میں ان کو ہاتھ میں لے لیں گے، اپنی آواز سے لوگوں کے دلوں کو ایسا گرما دیں گے کہ اگر وہ اشارہ کریں تو پبلک توڑ پھوڑ شروع کردے، مار پیٹ پر اتر آئے۔ اللہ نے ان کو ایسی صلاحیت دی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں کو وقتی ہی سہی، مگر متاثر کر لیتے ہیں۔ اس طرح سے وہ مرید بھی بنا لیتے ہیں، مفت کا پیسہ بھی کما لیتے ہیں اور عیاشی کی زندگی دوسروں کے بل پر گزارتے ہیں۔

آیت اللہ دستغیب صاحب اخلاق کے استاذ گزرے ہیں، وہ کہتے تھے کہ اگر منہ سے کوئی اچھی بات نکالنے کے بعد آپ چاہیں کہ لوگ تعریف کریں تو آپ خدا سے توقع نہ رکھیں کہ آپ کو اس کا آخرت میں اجر ملے گا، آپ تعریف سن کر پھول کر کپا ہوگئے ہیں، آپ نے اپنا اجر سود سمیت دنیا میں وصول کرلیا ہے۔ اب آپ خدا سے کیا چاہتے ہیں؟

وہ بیان کرتے تھے کہ ان کے مدرسے میں ایک جید عالم تشریف رکھتے تھے ، ایک دن صبح بیدار ہوئے تو یاداشت تقریباً غائب ہوچکی تھی، پڑھائی لکھائی، خطابت، اقوال زریں، قصے کہانیاں سب بھول گئے۔ ان کو دیکھ کر عبرت ہوتی تھی اور خوف آتا تھا کہ اگر ہمارے ساتھ ایسا ہو تو کیا ہوگا؟

میں خدا سے تکبر، بڑے بول اور ہر طرح کی ریاکاری پر چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، معافی کا خواہاں ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے ہمیشہ طالب علم رکھے، کبھی یہ سوچ میرے اندر پیدا نہ ہونے دے کہ میں عالم ہوں، میں کچھ جانتا ہوں۔

وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ انیب

ابو جون رضا

2

1 thought on “خود پسندی کا نشہ”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *