فقہی جمود

اہلسنت کی فقہ میں ایسا جمود ہے کہ اس نے ان کے علماء کرام کے دماغوں کو بھی بند کردیا ہے۔ جو اقتباس میں نے تصویر میں پیش کیا، اس میں یہ اعتراف موجود ہے کہ نیا کام صدیوں سے کچھ نہیں ہوا۔

اہلسنت مفتی حضرات کے نیا کچھ بھی پلے نہیں پڑتا۔

مشہور مستشرق جوزف شاخت نے آج سے چالیس سال پہلے کتاب لکھی اور قانون اسلامی پر گفتگو کرتے ہوئے مفتیان کرام کا وہ حشر کیا کہ ان مفتی حضرات کی اکثر فقہ کی کتابوں میں ، خاص طور پر جوزف شاخت کو برا بھلا لکھا ہوتا ہے۔

جوزف شاخت نے ثابت کیا کہ اسلامی قانون کا خمیر بنوامیہ کے انتظامی عمل سے اٹھایا گیا ہے اور حدیث نبوی دوسری صدی ہجری تک موجود نہیں تھی۔ جب تیسری صدی ہجری میں احادیث جمع ہونا شروع ہوئیں تو وہ اپنی اصلی حالت میں نہیں تھیں بلکہ اس میں دو صدیوں کے رسم و رواج بھی جمع ہوچکے تھے۔ ان تمام کو اکھٹا کرکے ان کے ملغوبہ کو حدیث اور سنت کا نام دیا گیا تھا۔

رسول اکرم کے بعد خلفائے راشدین اور دور نبوی یعنی پہلی صدی ہجری میں ایک سو سال تک عرب میں جو رسم و رواج تھے اور اس کے علاوہ خلافت اسلامیہ سے ملحق جو ممالک تھے ، ان کے طور طریقوں کو بھی قانونی ماخذ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

ایک مختصر مثال سے سمجھیے

موطا میں ایک روایت ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک مرتبہ نماز میں دیر کی۔ ان کو کسی نے آکر ٹوکا اور کہا کہ فلاں عامل نے بھی ایک دن دیر کردی تھی تو ان کو بتایا گیا کہ جبرائیل اوقات نماز میں نازل ہوتے تھے اور رسول اکرم کو نماز پڑھنے کا کہا کرتے تھے ۔ وہ ایک دن میں پانچ دفعہ نازل ہوئے اور رسول اکرم نے پانچ دفعہ نماز پڑھی۔

عمر بن عبد العزیز نے کہا ! خدا کا خوف کرو ، کیا تم یہ کہہ رہے ہو کہ جبرائیل نے رسول اکرم کو اوقات نماز تعلیم کیے؟

ٹوکنے والا خجل ہوگیا۔ اس نے کہا کہ فلاں صحابی یہی روایت کرتے تھے۔

یہ روایت بتاتی ہے کہ نماز کے بیان میں “میقاتہا” یعنی اس کے اوقات کا جملہ الگ سے شامل کیا گیا ہے۔ نماز وقت مقرر پر فرض تھی ، اس میں اول وقت پر ادا کرنے کے فضائل شامل کیے گئے اور اس قدر زور دیا گیا کہ جان چلی جائے مگر اول وقت نماز نہ چھوٹے ، اس کے بعد جماعت کے ساتھ نماز اور تکبیر اولی پر اس قدر توجہ دلائی گئی کہ اگر تکبیر اولی چھٹ جائے تو ہزار سال کی عبادت اس کے آگے ہیچ تھی۔

اس طرح فقہی انبار لوگوں پر لادے گئے، وہ عبادت کی اصل بھول گئے اور فروع پر زور دینے لگے۔ چار ائمہ کے اجتہاد کے بعد نئے اجتہادات کا دروازہ بند کردیا گیا ، یہاں تک کہ ایک زمانے میں خانہ کعبہ میں چار مصلے قائم کیے گئے، جو چار فقہی مسالک کی نمائندگی کرتے تھے۔

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *