
آیت 230. اگر تیسری بار طلاق دی گئی تو عورت حرام ہوجائے گی
آیت 231. اگر طلاق دی گئی ہے تو عدت پوری ہونے کے بعد یا تو شائستہ طریقے سے اپنے پاس روک لو ورنہ رخصت کردو۔ (طلاق مشکل عمل ہے قران کے بتائے ہوئے طریقے سے)
آیت 232. طلاق دینے کے بعد عورت آزاد ہے کہ وہ کسی سے بھی نکاح کرے۔
آیت 233. ماؤں کو بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ باپ کو کہا جارہا ہے کہ ماں کا کھانا کپڑا وغیرہ سب اس کے ذمے ہے۔ کسی بھی وجہ سے ماں کو تکلیف نہ دی جائے اور باپ کو بھی مشکل میں نہ ڈالا جائے، اگر میاں بیوں کسی اور عورت سے دودھ پلوانا چاہتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر معاوضہ دینا چاہیے۔
آیت 234. اگر میاں انتقال کرجائے تو بیوی چار ماہ دس دن خود کو روکے رہے۔ اس کے بعد وہ نکاح کرسکتی ہے۔ (یہاں لگتا ہے کہ حمل کا اندازہ لگانے کے لیے یہ مدت مقرر کی گئی ہے اور دوسرا جذباتی اور نفسیاتی طور پر عورت کو سنبھلنے کے لیے وقت مقرر کیا گیا ہے)
آیت 235. ایسی عورتوں سے جن کے خاوند انتقال کرگئے ہھں، ان سے نکاح کا اظہار اشاروں میں کیا جاسکتا ہے مگر کوئی قول و اقرار مت لو، خیال کرو ، عورت عدت میں ہے۔ (ایسا لگتا ہے کہ اس وقت عرب میں یہ صورت حال ہوگئی تھی کہ میاں مرا نہیں اور عورت کے رشتے آنا شروع ہوگئے، اس کی وجہ سے حفظ مراتب کا خیال رکھنے کا کہا جارہا ہے)
آیت 236. اگر نکاح ہوگیا مگر مرد قریب نہیں گیا اور مہر بھی طے نہیں ہوا تو طلاق دی جاسکتی ہے مگر مرد کچھ نہ کچھ اپنی حیثیت کے مطابق عورت کو ضرور دیں۔
آیت 237. لیکن اگر نکاح ہوگیا اور مہر مقرر ہوچکا مگر ہاتھ نہیں لگایا گیا ہو تو مہر کا آدھا مرد کو دینا پڑے گا، مگر یہ کہ عورت خود ہی دستبردار ہوجائے۔ اعمال پر خدا کی کڑی نگاہ ہے۔ (مردوں کو خوب سختی میں ڈالا گیا ہے)
آیت 238. نماز کی محافظت کا حکم ہے
آیت 239. اگر کوئی مشکل ہے تو پیدل ہو یا سوار ، نماز پڑھ لو۔ ( یعنی چلتے پھرتے ذکر خدا کرلو، کوئی سختی نہیں ہے)
آیت 240. ایسا لگ رہا ہے کہ اس زمانے میں عرب میں جب مرد وفات پا جاتا تھا تو عورت گھر سے نکال دی جاتی تھی۔ مردوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ وصیت کریں کہ بیوہ کو ایک سال تک نان و نفقہ دیا جائے، وہ گھر سے نہ نکالی جائیں ، یہ شاید typical عرب کلچر کی طرف اشارہ کرکے بات کی گئی ہے۔
آیت 241. مطلقہ عورتوں کو کچھ خرچہ دینا “تقوی والے” لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ (یہ آیت سورہ بقرہ کی پہلی آیت سے مربوط لگ رہی ہے کہ ہدایت وہی قبول کریں گے جو تقوی والے ہونگے)
آیت 243. کسی واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہزاروں لوگ موت کے ڈر سے نکلے ، اللہ نے ان کو مار کر پھر زندہ کردیا، یہاں شاید یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ موت تو ضرور آئے گی۔
آیت 245. خدا کو قرضہ حسنہ دینے کی بات کی جارہی ہے اور دگنا دینے کا وعدہ کیا جارہا ہے۔
آیت 246. کسی قوم کا ذکر کرکے لوگوں کو بتایا جارہا ہے کہ تم سے پہلے بھی ایسی قوم بنی اسرائیل میں تھی جن کو گھروں سے نکالا گیا۔ انہوں نے رسول سے کہا کہ ہم پر ایک سردار مقرر کر دیں تاکہ ہم جنگ کرسکیں۔ رسول نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر سردار مقرر کردیا گیا تو تم بات سے پھر تو نہ جاؤ گے؟ انہوں نے وعدہ کیا اور جب جنگ کا حکم آیا تو وعدے سے پھر گئے۔
آیت 247. یہ آیت بتاتی ہے کہ کسی غریب آدمی جس کا نام طالوت تھا، اسے سردار بنایا گیا تو قوم کو اعتراض ہوا کہنیہ دولت مند نہیں ہے۔ رسول نے کہا کہ اسے اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ یہ “علم و طاقت” میں زیادہ ہے۔
آیت 248. فرشتوں کے کسی صندوق کے لانے کا بتایا گیا ہے کہ وہ اس قوم کے پاس آئے گا اور اس میں آل موسی ہارون کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہونگی، اس کو دیکھ کر قوم کو سکون مل جائے گا۔ یہ اصل میں ایک نشانی ہوگی۔
آیت 249. طالوت کے لشکر لیکر جانے کا حکم ہے۔ جالوت سے لڑائی ہوئی ہے۔ جالوت کے پاس نفری زیادہ ہے مگر جو اہل ایمان ہیں وہ کہتے ہیں کہ قلیل جماعت بھی کٹیر جماعت پر فتح حاصل کرسکتی ہے۔
آیت 251. کافر شکست کھا گئے، داود نے جالوت کو قتل کردیا، انہیں سلطنت مل گئی اور حکمت بھی، بعض اقوام کے زریعے بعض کا دفاع کیا جاتا ہے۔
آیت 253. رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے۔ بعض سے خدا ہمکلام ہوا، بعض کے درجات بلند ہوئے ، عیسی بن مریم کو روشن نشانیاں دی گئیں ۔
آیت 255. اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ خدا انسانوں کی طرح نہیں ہے، وہ بغیر کسی پریشانی کے آسمان اور زمین، ہر جگہ کی نگہبانی کرلیتا ہے۔ اس کی کرسی پورے عالم کا احاطہ کرتی ہے۔ (یہاں شاید طاقت و قدرت مراد ہے)
آیت 256. دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔
آیت 258. حضرت ابراہیم سے کسی شخص نے جھگڑا کیا جو صاحب اقتدار تھا اور خود کو خدا سمجھتا تھا۔ حضرت ابراہیم نے اس کو دلیل سے چپ کروادیا۔
آیت 259. کسی شخص کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کو سو برس تک مردہ رکھا گیا اور پھر اس کو زندہ کیا گیا۔ اس واقعے میں نشانیاں موجود ہیں۔
آیت 260. حضرت ابراہیم کو بھی نشانی کے زریعے قلبی اطمینان دلایا گیا۔
(جاری)
ابو جون رضا