سورہ البقرہ ۔ ایک مطالعہ (2)

آیت 23. آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا اس وقت کے مخاطبین کو چیلنج دے رہا یے کہ اس طرح کی سورت اگر انسان نے اپنے پاس سے بنا لی ہے تو تم بھی بنا کر لے آؤ ۔ تم اپنے دیوتا کی طرف سے اترا ہوا کلام پیش کرو۔

آیت 24. جنت میں کھانے پینے کے لیے وہی پھل ملیں گے جن سے انسان مانوس ہے۔ بیویوں کی کثرت ہوگی۔ اگر اس معاملے کو دوسرے طریقے سے دیکھا جائے تو مردوں اور عورتوں کے لیے جنسی حوالے سے کسی قسم کے مسائل پیش نہیں ہونگے۔

آیت 29۔ زمین پر اشیاء پہلے پیدا ہوئی ہیں، آسمان کی طرف خدا نے توجہ بعد میں کی ہے۔

آیت 30. فرشتوں کو پتا چلا کہ زمین پر موجود کسی مخلوق کو خدا اپنا نائب مقرر کرنے والا ہے تو ان کے خیال میں کسی مخلوق کو بنانے کا زیادہ سے زیادہ مقصد یہ ہوگا کہ خدا کو مزید ایسی مخلوق کی ضرورت ہے جو حمد و ثناء کرے۔ ان کے نظریے کے مطابق یہ کام وہ بہتر طور پر انجام دے رہے ہیں اور کسی قسم کا فساد بھی برپا نہیں کرتے۔ جبکہ زمین پر موجود مخلوق اکثر فساد برپا کرتی ہے۔ ان کے اعتراض کو خدا نے مسترد کردیا کہ میں زیادہ جانتا ہوں۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں اعتراض پیش کرنے کی ممانعت نہیں تھی، بات کو قبول کرنا البتہ خدا کے اختیار میں تھا۔

آیت 33. فرشتوں کے جواب سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر جستجو نہیں تھی۔ وہ لگے بندھے روٹین کے عادی تھے۔ آدم اس معاملے میں بازی لے گئے۔ خاص بات یہ بھی ہے فرشتے بھی کچھ نہ کچھ پوشیدہ رکھتے تھے یا ذہن میں اعتراضات کو بھی چھپائے رکھتے تھے۔

آیت 34. فرشتوں کو انسان کے آگے جھک جانے کا حکم ملا، اس میں کوئی ابلیس تھا جس نے انکار کردیا۔

آیت 35. ایسا لگتا ہے کہ آدم اور ان کی بیوی جن کا خلقت کے وقت خدا نے زکر نہیں کیا، وہ کسی ایسے ماحول میں تھے جہاں ہر چیز آسانی سے مشقت کے بغیر مل جاتی تھی۔ کسی ایک سمت جانے پر پابندی تھی ۔ سجدہ آدم کو کروایا گیا، ان کی وائف کو سجدہ نہیں کروایا گیا ابلیس کو بھی آدم کو سجدہ کرنے میں تامل تھا۔

آیت 36. یہاں شیطان کا ذکر ہے۔ جس نے اپنی پاورز کے زریعے آدم سے کوئی نافرمانی کروادی جس کی وجہ سے فری کی نعمتوں پر آدم کا استحقاق ختم ہوگیا اور ان کو کسی جگہ سے نیچے اترنے کا حکم ملا۔ یہ دونوں اب ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔

آیت 37. عجیب بات ہے کہ آدم نے خدا سے معافی مانگی۔ یہاں حوا کا ذکر نہیں ہے۔ لگتا یہی ہے کہ آدم کی وجہ سے وہ بھی گرفتار بلا ہوئیں۔ اور آدم نے ہی معافی مانگی۔ یہاں پر خواتین کے حقوق کا شور مچانے والوں کو متوجہ ہونا چاہیے۔

آیت 44. ایک خاص بات بیان کی گئی ہے کہ دوسروں کو نیکی کا حکم دینے سے پہلے خود عمل کرو۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

آیت 45. نماز بار گراں ہے مگر وہی پڑھیں گے جن کو خیال رہتا ہے کہ انہیں اپنے خالق سے ملنا ہے۔

آیت 48. قیامت کے روز کسی کی سفارش قبول نہیں ہوگی نہ ہی کوئی بدلہ بنے گا۔

آیت 55. حضرت موسی کے ساتھ رہ کر نشانیاں دیکھ کر بھی بنی اسرائیل خدا کو دیکھنے کی تمناء کررہے ہیں، ان کو بجلی پکڑ لیتی ہے۔

آیت 62. یہ آیت بتاتی ہے کہ خدا پر روز آخرت پر ایمان رکھنے اور نیک عمل کرنے سے نجات مل جائے گی۔

آیت 67. خدا نے کسی گائے کو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد مخاطبین نے اس کی خصوصیات پوچھیں تو وہ کوئی خاص گائے تھی۔

آیت 72-73. یہاں پتا چلتا ہے کہ گائے کو ذبح کرکے مقتول کے جسم پر اس کا جسم یا کوئی حصہ مارنے کا حکم ہے۔ اس سے ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسی نشانی سامنے آئی ہو جس سے قاتل کا پتا چل گیا ہو۔ معاملہ تھوڑا گنجلک ہے۔

آیت 79. کوئی کتاب لکھ کر لوگوں نے خدا سے منسوب کردی ہے، اس پر ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے۔

آیت 80. یہاں اعلان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جہنم کی آگ دو چار دن سے زیادہ اس پر اثر انداز نہیں ہوگی تو خدا نے کسی سے کوئی عہد نہیں لے رکھا۔

آیت 81-82. جو کوئی بدی اختیار کرے گا اور اس کے گناہ اس پر حاوی ہوگئے تو وہ دوزخ میں ہمیشہ رہے گا، جو ایمان لائیں گے اور اچھے کام کریں گے وہ اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔

آیت 85. کتاب کے کچھے حصے پر لوگ ایمان لاتے ہیں کچھ کو جھٹلا دیتے ہیں

آیت 90. رسول کا انکار کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ ان کی قوم کا فرد نہیں ہے۔

آیت 93. لوگوں کے دلوں میں گوسالہ بس جانے کا ذکر ہے۔ یعنی خدا کے علاوہ کسی کو خدا جیسا سمجھ کر دل میں بسا رکھا ہے۔ اگر یہ ایمان ہے تو تمہارا ایمان تم سے بڑے برے تقاضے کرتا ہے۔

آیت 96. خدا کے احکامات کو نہ ماننے والا لمبی عمر کا حریص ہوتا ہے۔

آیت 97. جبرائیل کا ذکر ہے کہ اس کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ یہ غیر عربی لفظ ہے۔ جبر اور ایل۔ یعنی شاید قوت خدا کی طرف اشارہ ہے۔

آیت 102. حضرت سلیمان کے دور میں شیاطین کچھ پڑھا کرتے تھے۔ اس علم کو سحر کا نام دیا ہے جس سے شاید برے اثرات مرتب ہوتے تھے۔ اس کے مقابل میں دو فرشتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو شاید کوئی روحانی علم سکھاتے تھے لیکن ان سے علم سیکھ کر لوگ میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتے تھے، یہ سمجھ نہیں آیا کہ فرشتوں کو ایسا علم سکھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

آیت 106. آیات کی منسوخی اور فراموش کرنے کا بتایا جارہا ہے۔ یہ پچھلی الہامی کتابوں کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے اور قرآن کی طرف بھی۔

آیت 108. حضرت موسی سے ان کی قوم نے اوٹ پٹانگ سوال کیے تھے۔ شاید خدا کو دیکھ لینے والی پچھلی آیت کی طرف اشارہ ہے۔ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا تم بھی ایسے سوال کرو گے جن کی وجہ سے ایمان کفر میں بدل جاتا ہے؟

آیت 113. یہودی ہوں یا نصرانی دونوں ایک دوسرے کو نہیں مانتے۔ خدا ان کے درمیان قیامت میں فیصلہ کرے گا.

آیت 119. جو لوگ دوزخ کے مستحق ہوگئے ان کے حوالے سے خدا اپنے رسول سے کچھ نہیں پوچھے گا.

آیت 123. یہ آیت دوبارہ بتاتی ہے کہ قیامت کے روز کوئی معاوضہ قبول ہوگا، کوئی شفاعت فائدہ پہنچائے گی نہ ہی کہیں سے مدد مل سکے گی۔

آیت 125. ابراہیم کو ان کے رب نے آزمایا، پھر ان کو لوگوں کا پیشوا بنائے جانے کی بشارت دی۔ انہوں نے چاہا کہ یہ منصب ان کی اولاد میں بھی مںتقل ہو۔ کہہ دیا گیا کہ ظالموں کو یہ عہدہ نہیں مل سکتا۔

آیت 125. حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کو حکم دیا گیا کہ میرے گھر کو اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔

آیت 126. مکہ کے لیے حضرت ابراہیم کی دعا کی کہ اسے امن کا گہوارہ بنا دے۔

آیت 128-129 حضرت ابراہیم اور اسماعیل نے دعا کی کہ ہماری ذریت میں سے ایک فرمانبردار امت پیدا کر، اس امت کے لیے ایک رسول مبعوث کر جو انہیں “کتاب و حکمت” کی تعلیم دے۔

آیت 134. ایک خاص بات بتائی گئی ہے کہ گذشتہ امتوں کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں، تم سے اس بابت سوال نہ ہوگا۔

آیت 135. خدائی رنگ اختیار کرو، اس سے اچھا کونسا رنگ ہوسکتا ہے

آیت 141. وہی بات ریپیٹ کی گئی ہے جو آیت 134 میں کہی گئی۔ اہمیت زیادہ لگ رہی یے۔

آیت 142-149. پہلے کسی قبلے کی طرف رخ کرکے عبادت کی جاتی تھی ، وہاں سے رخ پھیر کر خانہ کعبہ کی طرف رخ پھیر لینے کا حکم دیا گیا یے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ رسول کی خواہش تھی جس کا خدا نے احترام کیا ہے۔

آیت 151. پتا چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی دعا جس کا پہلے تذکرہ گزر چکا ، وہ قبول ہوگئی، ایسا رسول آگیا جو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے

( اگر آیت 129 اور آیت 151 ایک ساتھ یا معمولی وقفے سے آئی ہیں تب تو کہی گئی باتوں کا دھیان رکھنا آسان ہے، اگر طویل وقفے سے آئی ہیں تو اتنی باریک باتوں کا دھیان رکھنا بہت تعجب کی بات ہے)

(جاری)

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *