
میں پیدائشی مسلمان ہوں۔ چیزوں کو مذہبی تناظر میں دیکھنے کا عادی رہا ہوں۔ اس عادت سے پیچھا چھڑانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن فلسفہ میں ماسٹرز کرنے کے بعد اور کچھ فلسفہ کے جید اساتذہ کے فیض سے اس عادت سے بہت حد تک چھٹکارا پاچکا ہوں۔
اب نیوٹرل ہوکر کتابوں کو پڑھنے کی ” کوشش” کرتا ہوں اور شاید بہت حد تک کامیاب ہوں۔ “مقدسات” کو ذہن سے ریموو کردیا ہے، غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے، ارتقائی طور پر انسان کی سوچ آگے کی طرف بڑھتی ہے ، غلطیوں سے انسان سیکھتا ہے، آگے بڑھ جاتا ہے۔
مبشر بھائی نے قرآن کو عام آدمی کی طرح پڑھنے کا دعوی کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک پوسٹ بھی لگائی ہے۔ انہوں نے سطر بہ سطر اعتراض کرنا شروع کردیے ہیں۔جس سے ابتدائی طور پر یہ پتا چل رہا ہے کہ انہوں نے تنقیدی نگاہ سے کتاب کا مطالعہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
ایک بات میرے کمنٹ کے جواب میں انہوں نے واضح کردی ہے کہ قرآن ان کی نگاہ میں “ہدایت کے لیے ترتیب” دی گئی کتاب ہے۔ یعنی ملحدین کے اس کتاب کو اساطیری کہانیوں پر مشتمل کہنے کے دعوی سے مبشر بھائی اتفاق نہیں کرتے۔
ان کے ساتھ ساتھ ہم بھی اس ماہ رمضان قران کو عام آدمی کی طرح دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کا بہرحال شکریہ تو بنتا ہے کہ اس ماہ رمضان وہ ایک “مہجور” کتاب کو کم از کم اس حد تک لائم لائٹ میں لے آئیں گے کہ ان کو جواب دینے کے چکر میں لوگ اس کتاب کو روایتی طریقوں سے ہٹ کر کھول کر دیکھیں گے۔
ایک بات قرآن کے طالب علموں کو دھیان میں رکھنی چاہیے کہ وہ تفاسیر کی طرف توجہ نہ کریں۔ کوئی حدیث نہ پڑھیں۔ صرف اس کتاب کو دیکھیں۔ بہت زیادہ آسانی محسوس کریں گے۔
ابو جون رضا