انبیاء اور جدید ذہن کے اشکالات (2)

قرآن کریم کی ایک آیت ہے ۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَ لَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ بَعۡضُکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ۔

(سورہ نور آیت 58)

اے ایمان والو! ضروری ہے کہ تمہارے مملوک اور وہ بچے جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں تم سے اجازت لے کر آیا کریں، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر، اللہ اس طرح تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

قرآن کریم عربی قوم پر نازل ہورہا تھا، وہ ان کو آداب سکھا رہا تھا۔ آج کل کی طرح کے دروازے گھروں میں نہیں ہوتے تھے اس کے علاوہ گھر میں غلام بھی پائے جاتے تھے۔

پہلے حکم آیا کہ لوگوں کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں ، ساتھ میں کچھ حالات استثنائی کا بھی ذکر ہوا، جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ وہ حالات یہ ہیں: 1۔ گھر کے غلام۔ 2۔ نا بالغ بچے۔ یہ دونوں گھر میں طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ ہیں جو بار بار تمہارے پاس آتے رہتے ہیں۔ انہیں ہر بار اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

البتہ تین اوقات تمہارے تخلیے کے ہوتے ہیں، ان میں یہ دونوں بھی اجازت کے بغیر تمہارے پاس داخل نہ ہوں۔

اس جدید دور میں غلام اور کنیزیں گھروں میں نہیں پائی جاتیں تو کیا اس حکم کو منسوخ سمجھا جائے ؟ اب مرد حضرات دوپہر میں بھی گھروں سے باہر ہوتے ہیں تو کیا یہ حکم باقی رہے گا؟

غور کیجئے کہ یہ ایک یونیورسل نارم بن گیا ہے۔ آپ آفس میں اپنے کیبن میں ہیں، آپ کا جونئیر یا کوئی نیا آنے والا اندر آنے سے پہلے آپ سے اجازت طلب کرے گا۔ گھر میں آپ کا جوان بچہ یا بچی بھی منہ اٹھا کر رات میں آپ کے کمرے میں داخل نہیں ہونگے۔

یہ تربیت ہے جو قرآن نے اس قوم کی کری جو ہفتوں نہاتے نہیں تھے۔ ان کے پاس سے بدبو آتی تھی۔ ان کو وضو اور غسل کے احکامات بیان کیے۔ دن میں پانچ دفعہ صرف وضو کرلینا ہی گندگی اور بدبو کو دور کرتا ہے۔ اگر پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کا حکم دیا اور پھر یرید اللہ بکم الیسر کا جملہ کہہ کر بتایا کہ خدا مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ آسانیاں چاہتا ہے۔

ام المومنین بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم کے سامنے جب دو مراحل آتے تھے تو آپ ہمیشہ آسانی والا آپشن استعمال کرتے تھے۔ لیکن بعد کے ادوار میں دین کو اتنا ہی مشکل بنا دیا گیا کہ وہ اب جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں رہا۔ اس پر عمل پیرا لوگ بڑی مشکل سے ماڈرن دور میں رینگ رینگ کر ساتھ نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری)

ابو جون رضا

4

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *