چالیس (40) اور سات (7) کا ہندسہ

چالیس کا ہندسہ مختلف مذاہب، ثقافتوں، اور روایات میں ایک خاص حیثیت رکھتا ہے۔

اسلام میں چالیس کا عدد

  1. حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کوہ طور پر قیام

وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ۚ وَ قَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَ اَصۡلِحۡ وَ لَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿سورہ اعراف ۱۴۲﴾

۱۴۲۔ اور ہم نے موسیٰ سے تیس(۳۰) راتوں کا وعدہ کیا اور دس(دیگر)راتوں سے اسے پورا کیا اس طرح ان کے رب کی مقررہ میعاد چالیس راتیں پوری ہو گئی اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کا راستہ اختیار نہ کرنا۔

  1. حضرت محمد ﷺ کی بعثت

نبی کریم ﷺ کو نبوت عطا کی گئی جب آپ ﷺ کی عمر چالیس سال تھی، جو روحانی پختگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

پرانے زمانے اور دیگر مذاہب میں چالیس کا عدد

  1. یہودی اور مسیحی روایات

حضرت نوح علیہ السلام: طوفان نوح چالیس دن اور رات تک جاری رہا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام: بائبل میں ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ نے چالیس دن روزے رکھے۔

  1. روحانی پختگی

مختلف ثقافتوں میں چالیس کو روحانی تربیت، پختگی اور تبدیلی کے لیے کافی وقت سمجھا جاتا ہے۔

  1. صوفی ازم میں چالیس کا عدد

صوفی روایات میں “چلہ کشی” کا تصور موجود ہے، جہاں کوئی شخص چالیس دن تک عبادت یا ذکر میں مشغول رہتا ہے تاکہ روحانی ترقی حاصل کرے۔

چالیس کی اہمیت کیوں؟

  1. روحانی تربیت کا وقت

چالیس دن کو اکثر انسانی نفس کی پاکیزگی اور عادتوں کو تبدیل کرنے کے لیے کافی وقت سمجھا جاتا ہے۔ جدید نفسیات کے مطابق بھی عادت کو تبدیل کرنے میں تقریباً 21 سے 40 دن لگ سکتے ہیں۔

کیا چالیس مرتبہ عمل کرنے کی خاص حیثیت ہے؟

اسلامی تعلیمات میں تعداد سے زیادہ نیت اور اخلاص کی اہمیت ہے، لیکن بعض اعمال میں چالیس کی تعداد کو خصوصی حیثیت دی گئی ہے۔

مثال کے طور پر:

اگر کوئی شخص چالیس دن تک باجماعت نماز ادا کرے تو حدیث کے مطابق وہ نفاق سے محفوظ رہتا ہے۔ (ترمذی)

ذکر اور دعا کے لیے چالیس کی تعداد کو بعض اولیاء کرام نے مجرب پایا ہے، لیکن یہ لازمی شریعت کا حصہ نہیں بلکہ روحانی تجربے کا نتیجہ ہے۔

سات کا عدد دنیا کی مختلف ثقافتوں، مذاہب اور تاریخی روایات میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ عدد اکثر کمال، تکمیل، تقدس، اور کائناتی توازن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ قدیم زمانے سے ہی اس عدد کو ایک روحانی، فطری اور علامتی اہمیت دی گئی ہے۔

چالیس کی طرح سات کے عدد کو بھی اہمیت حاصل رہی ہے۔

اسلام میں سات کا عدد

  1. قرآن مجید میں سات کا ذکر:

سات آسمان: اللہ نے سات آسمان تخلیق کیے۔

(سورۃ الملك 67:3)

سات زمینیں: قرآن میں سات زمینوں کا بھی ذکر ہے۔

(سورۃ الطلاق 65:12)

طواف: خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانا حج اور عمرہ کا لازمی رکن ہے۔

سعی: صفا اور مروہ کے درمیان سات مرتبہ دوڑنا حج کا حصہ ہے۔

دوزخ کے سات دروازے:

قرآن میں دوزخ کے سات دروازوں کا ذکر ہے۔

(سورۃ الحجر 15:44)

  1. دیگر اسلامی تعلیمات:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص روز قیامت سات چیزوں سے بچے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (بخاری، مسلم)

سات دن تک مہمان نوازی کو فضیلت دی گئی ہے۔

اسماعیلی فکر اور سات کی اہمیت

  1. سات ائمہ کا تصور:

اسماعیلی عقائد کے مطابق، حضرت علی علیہ السلام سے لے کر امام اسماعیل تک سات اماموں کا ایک خاص سلسلہ موجود ہے۔

یہ تصور ان کے عقائد کے روحانی سلسلے اور نظام کا حصہ ہے۔

  1. سات درجے یا منازل:

اسماعیلی صوفیانہ تعلیمات میں روحانی ترقی کے سات درجے یا منازل کا ذکر ہے۔ یہ درجے انسان کو نفس کی پاکیزگی سے لے کر حق کی معرفت تک پہنچاتے ہیں۔

یہ منازل درج ذیل ہو سکتی ہیں:

  1. نفس
  2. قلب
  3. روح
  4. سر
  5. خفی
  6. اخفی
  7. حق
  8. سات ادوار کا تصور:

اسماعیلی فلسفے میں یہ عقیدہ موجود ہے کہ تاریخ سات ادوار یا ادواری چکروں پر مشتمل ہے، ہر دور ایک امام یا نبی کے ذریعے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

مثال کے طور پر، آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، محمد ﷺ، اور امام مہدی۔

  1. کائناتی نظام میں سات کا عدد:

اسماعیلی فکر میں یہ تصور ہے کہ کائنات سات آسمانوں، سات زمینوں، اور سات سیاروں کے توازن پر مبنی ہے، جو خدا کی حکمت اور ترتیب کو ظاہر کرتا ہے۔

  1. سات کا روحانی راز:

اسماعیلی باطنی فلسفہ سات کو ایک رازدارانہ اور علامتی عدد کے طور پر دیکھتا ہے، جو الہی ہدایت اور باطنی علم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

دیگر مذاہب اور ثقافتوں میں سات کا عدد

  1. یہودیت اور مسیحیت:

تخلیق کا ہفتہ: بائبل کے مطابق اللہ نے کائنات کو چھ دن میں تخلیق کیا اور ساتویں دن آرام کیا، جسے سبت کہا جاتا ہے۔

سات بگل اور سات چراغ:

بائبل میں سات کو ایک مکمل اور مقدس عدد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

  1. ہندو مت:

ہندو مذہب میں سات مقدس دریا، سات آسمانی سیڑھیاں، اور سات جنموں کا تصور موجود ہے۔

شادی کی رسومات میں دولہا دلہن سات پھیرے لیتے ہیں۔

  1. قدیم مصر:

مصری تہذیب میں سات کو لافانی اور کمال کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

ان کے عقائد میں روح کے سات مراحل تھے۔

  1. یونانی فلسفہ:

یونانیوں نے سات کو ایک مکمل اور جادوئی عدد سمجھا۔ ان کے نزدیک سات سیارے، سات گناہ، اور سات خوبیوں کا تصور موجود تھا۔

فطری اور کائناتی اہمیت

  1. قدرتی توازن:

ہفتے کے سات دن۔

قوسِ قزح کے سات رنگ۔

موسیقی کے سات سُر (سا، رے، گا، ما، پا، دھا، نی)۔

انسانی جسم میں سات بنیادی چکر (چکرہ)۔

  1. قدیم فلکیات:

سات سیاروں (چاند، سورج، مریخ، عطارد، مشتری، زہرہ، زحل) کا ذکر قدیم فلکیات میں موجود تھا۔

سات کو فلکیاتی اور روحانی توازن کے عدد کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

سات کی علامتی اہمیت

  1. کمال اور تکمیل:

سات کو مکمل اور کامل عدد تصور کیا جاتا ہے، جو دنیاوی اور روحانی زندگی کا توازن ظاہر کرتا ہے۔

  1. روحانی تطہیر:

کئی مذاہب میں سات کو روحانی تطہیر اور جنت و دوزخ کے درمیان ایک اہم علامت سمجھا جاتا ہے۔

  1. تقدس اور حفاظت:

قدیم زمانے میں سات کو بری نظر اور شیطانی اثرات سے بچنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

“عشق کے بھی سات مقام ہیں” 🙂

جائزہ:

سات کا ہندسہ، چالیس کا ہندسہ یا بارہ کا ہندسہ ویسے تو ایک ہی جیسے ہیں، لیکن انسانی زندگی میں ہفتوں سالوں اور مہینوں کے مختلف ادوار تعین کیے گئے ہیں،جس کی وجہ سے ان کو خاص اہمیت حاصل ہوگئی ہے. ان کا شرعی حوالے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ (قاضی نور اللہ شوستری نے عدد بارہ کے فضائل اپنی کتاب میں بیان کیے ہیں)

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *