جادو ٹونا (3)

قران کریم نے حضرت موسی کے واقعے میں جادوگروں کا تذکرہ کیا ہے جب انہوں نے رسیاں پھینکیں تو وہ سانپ بن کر حرکت کرنے لگیں۔

جادوگر بعض اوقات شعبدے بازی سے کام لیتے ہیں۔ وہ چیزوں کو اس طرح سے اور اس تیزی سے استعمال کرتے ہیں جن کی عقل انسانی کوئی توجیح نہیں کرپاتی اور حیران رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ٹوپی میں سے خرگوش نکال لینا، تاش کے پتوں سے ٹرکس کرنا، جو پتا آپ نے چنا وہ گڈی میں ملا دینا اور پھر آپ کی ہی جیب سے برآمد کرنا وغیرہ۔

میرے ایک جاننے والے صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ سعودی عرب میں کام کرتے تھے تو ایک کولیگ نے ان کو بتایا تھا کہ اس نے کسی جادوگر سے ایک منتر سیکھا تھا ۔ وہ ٹرک یہ تھی کہ آپ ہاتھ میں سکہ لیں اور مضبوطی سے ہتھیلی کے درمیان رکھ کر مٹھی بند کرلیں۔ وہ صاحب آپ کی ہتھیلی کی پشت پر ایک دو مرتبہ انگلی پھیریں گے اور منتر پڑھیں گے، جب آپ مٹھی کھولیں گے تو سکہ غائب ہوچکا ہوگا۔ وہ سکہ غائب کرسکتے تھے مگر واپس لانے والا منتر ان کو نہیں آتا تھا۔

اسی طرح سے ڈاکٹر جاوید اقبال جو علامہ اقبال کے بیٹے ہیں انہوں نے اپنی کتاب اپنا گریباں چاک میں لکھا کہ ان کو باغ میں ٹہلتے ہوئے کسی کیڑے نے کاٹا جس کی وجہ سے بازو سوج گیا اور بہت تکلیف ہونے لگی۔ پیر کرم شاہ الازہری نے بازو پر پڑھ کر دم کیا تو فورا سوجن غائب ہوگئی اور تکلیف بھی ختم ہوگئی۔

یہ نفسی علوم ہیں ۔ ان کا پہلا درجہ شعبدہ بازی ہے۔ دوسرا درجہ وہ ہے جس میں یہ نفس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان کی آنکھوں کے سامنے منظر تبدیل ہوجاتا ہے، فرعون کے جادوگروں نے یہی عمل کیا تھا جس کی وجہ سے حاضرین اور خود حضرت موسی کو رسیاں سانپ بن کر دوڑتی ہوئی نظر آئیں اور ان کو خوف محسوس ہوا۔ آپ نے خدا کے حکم پر جب اپنا عصا ڈالا تو اس کی وجہ سے جادوگروں کا انسانی تخیل پر اثر ختم ہوگیا اور مجمع کو دوبارہ سانپوں کی جگہ رسیاں نظر آنے لگیں، مگر حضرت موسی کا عصاء ایک قوی الجثہ سانپ کی شکل میں سامنے موجود تھا۔ اس کو دیکھتے ہی وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں ہے بلکہ کوئی ماورائی شے ہے۔ انہوں نے فورا سجدے میں سر رکھ کر کہا کہ ہم موسی کے خدا پر ایمان لے آئے ہیں۔

جادو کا تیسرا درجہ وہ ہے جہاں انسان شیاطین اور اجنہ سے رابطہ قائم کرلیتا ہے۔ اس کے زریعے سے بعض اوقات وہ کچھ وقتی فائدے بھی حاصل کرلیتا ہے مگر اس کی قیمت اس کو اپنے ایمان کی شکل میں دینا پڑتی ہے۔ ان قوتوں کی وجہ سے وہ دوسروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، لیکن اتنا ہی جتنا خدا چاہے۔ یعنی اگر کسی کی آزمائش خدا کو منظور ہے تو ممکن ہے کہ اس طرح کے کسی انسان کی حرکتوں کی وجہ سے وہ نقصان اٹھائے۔ لیکن اگر وہ پختہ ایمان والا ہے تو خدا جلد ہی اس کی مدد کرتا ہے اور وہ انسان پریشانیوں سے نکل آتا ہے۔

جس طرح سے برے لوگ شیاطین سے رابطہ کرتے ہیں اسی طرح سے نفسی علوم کے ماہر بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو برے عمل کی کاٹ کرتے ہیں اور جادو کا توڑ کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں مگر ان کی پہچان ان کا تقوی اور پیسے یا کسی فائدہ کا طالب نہ ہونا ہے ۔ وہ فی سبیل اللہ یہ کام کرتے ہیں اور دعاؤں کے طالب رہتے ہیں۔

(جاری)

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *